مالیاتی بحران اور غریب ومتوسط طبقات

مہنگائی اور اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ہر ایک کو بری طرح متاثر کیا ہے، آئے روز قیمتوں میں اضافے نے غریب اور متوسط طبقات کے لئے بقاء اور اپنے خاندانوں کی کالفت بہت مشکل بنا دی ہے، ہماری اشرافیہ اور اعلیٰ طبقے کو عام آدمی کے مسائل سے کوئی سرو کار نہیں ہے، وہ غریب کا سوچے بغیر مراعات اور سہولیات سے استفادہ کر رہے ہیں، پھر ہمارے ٹی وی چینلز اور صحافتی ادارے بھی اسی طبقے کو ہی زیادہ کوریج دے رہے ہیں، غیر ضروری معاملات پر زیادہ بحث و مباحثے کرائے جاتے ہیں جب کہ عام لوگوںکے مسائل نظرانداز کئے جا رہے ہیں اور انہیں سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ہے۔ تمام تر توجہ سیاست اور حکمراں طبقے کے مفادات پر ہے، بے روزگاری، مہنگائی، دہشت گردی، بنیادی سہولتوں کے فقدان جیسے عوامی مسائل پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اگر ہم حکومتی اعداد و شمار دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ سب ٹھیک ہے لیکن زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں، یہاں غریب دن بدن غریب تر ہوتا جا رہا ہے، لوگوںمیں کمانے کی سکت نہیں ہے، ملازمت کے مواقع بہت محدود ہیں اور تعلیم یافتہ، ہنرمند اور باصلاحیت نوجوانوں کی اکثریت بے روز گار ہے، یہ صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتی جا رہی ہے اور غریب کے مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں، لوگوں کا اعداد وشمار سے کیا لینا دینا؟ وہ تو زمینی حقائق دیکھتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہیں۔
اگر ہم ترقی یافتہ اور فلاحی معاشروں کی طرف دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس مؤثر، شاندار اور عوام دوست نظام موجود ہیں، وہ ٹیکس جمع کرتے ہیں اور پھر اس پیسے کو عوام کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کرتے ہیں، وہ عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، ان معاشروں میں اشیاء کی قیمتیں زیادہ تر ایک سطح پر ہی رہتی ہیں یا بہت کم اضافہ ہوتا ہے، قیمتوں میں اضافہ ہو تو اس کے ساتھ کم سے کم اجرت کی شرح بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ وہاں لوگ قیمتوں میں اضافے سے اس لئے متاثر نہیں ہوتے کیونکہ حکومت انہیں ممکنہ حد تک ریلیف فراہم کرتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں صورت حال یکسر اس کے برعکس ہے، یہاں طاقتور ٹیکس چوری کرتا ہے اور ٹیکس کی مد میں جو رقم جمع بھی ہوتی ہے وہ یا تو بدعنوان لوگوں کے ہاتھوںمیں چلی جاتی ہے یا پھر اعلیٰ اور مراعات یافتہ طبقے کے لئے ہی استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان دراصل تیل پر انحصار کرنے والا ملک ہے، بدقسمتی سے ہماری تمام اشیاء کی قیمتوں کا انحصار زیادہ تر تیل کے نرخوں پر ہوتا ہے، ہم فیول کے لئے متبادل ذرائع کے فروغ اور استعمال میں ناکام رہے ہیں، شمسی، پون، سالڈویسٹ ،کوئلے اور بائیو گیس کے ذرائع پر سنجیدگی سے کام نہیںکیا اور صرف پٹرول اور ڈیزل پر انحصار کرتے رہے، ہم جدت، تحقیق و ترقی میں بھی بہت پیچھے ہیں، توانائی کے حصول کے لئے روایتی ذرائع استعمال کئے جا رہے ہیں اور جدید مہارتیں اور آلات بروئے کار نہیں لائے جا رہے، ہمیں اس اہم شعبے میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے اور توانائی کے لئے پٹرول اور ڈیزل پر انحصار کم سے کم کرنا ہوگا کیونکہ تمام اشیاء قیمتیں تیل کی قیمتوں کے ساتھ بڑھ جاتی ہیں، پھر دکاندار اور سرمایہ کار بھی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کر دیتے ہیں، حکومتی سطح پر اس کی روک تھام کے لئے کوئی مؤثر نظام نہیں ہے، ہمیں قیمتوں پر مؤثر کنٹرول اور ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہے۔
عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ سبسڈی کی فراہمی اور قیمتوں میں اضافے سے پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لئے استعمال ہونا چاہیے، چنانچہ ہمیں ٹیکس نظام میں اصلاحات لانے اور اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے، بنیادی معاملہ شفافیت اور دیانتداری کا ہے، اگر پورا ٹیکس جمع ہو اور پھر مکمل ذمہ داری کے ساتھ اور شفاف انداز میں استعمال ہو تو چیزیں درست سمت میں جا سکتی ہیں، ہمیں بدعنوانی سے بھی چھٹکارہ پانا ہوگا کیونکہ ایسا کئے بغیر ہم اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔ یہاں ٹیکس کی شرح بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، روز مرہ کے استعمال کی اور بنیادی اشیاء ٹیکس سے مستثنیٰ ہونی چاہئیں جبکہ پرتعیش اشیاء پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لیا جانا چاہئیں۔
یقیناً تیل اور ڈالرکی قیمتوں میں اضافے سے ہماری معیشت بری طرح متاثر ہوئی، ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا جنہوں نے ہمیشہ ایسے معاہدوں کے لئے ہمیشہ کڑی شرائط لگائیں جنہیں اس لئے ماننا پڑا کیونکہ ملک کو سنگیں مالیاتی بحران سے نکالنے کیلئے کوئی اور راستہ نہیں تھا، چنانچہ ہمارا اگلا ہدف اپنے نظام اور معیشت کو مضبوط کرتے ہوئے غیرملکی قرضوں پر انحصار کم کرنا ہو، ٹیکس نظام میں خامیاں دور کرکے اور جامع اقتصادی لائحہ عمل پر عمل پیرا ہو کر ہم یہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں ، ہمیں عام آدمی کے مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم اس معاملے کو سنجیدہ لیں تو کچھ بھی حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے، بنیادی شرط عملی اقدامات کی ہے، ملک اور عوام کو خوشحال بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات درکار ہیں۔
(بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟