مثبت آغاز

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امین گنڈاپور کی وزیر اعظم شہباز شریف سے مثبت ملاقات اور وزیر اعظم کی جانب سے مکمل تعاون اور صوبے کی واجب الادا رقم ادا کرنے کی یقین دہانی پر اطمینان کا اظہار برف پگھلنے کا آغاز ہے جس پر حکومتی اور سیاسی دونوں حوالوں سے اعتماد سازی کی توقع ضرور ہے، البتہ تحریک انصاف کی قیادت اب تک جس طرز سیاست کا مظاہرہ کرتی آئی ہے اس سے خدشہ ضرور ہے کہ کب اچانک سے حالات انگڑائی لیں ،بہرحال وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے بڑی متوازن بات یہ کہی ہے کہ انہیں پاکستان کے معاشی حالات معلوم ہیں تو وہ بھی کوئی ایسا مطالبہ نہیں کریں گے جسے پورا کرنا ناممکن ہو، ہم نے عوام کے مسائل حل کرنے ہیں، صوبے اور پاکستان کے مسائل حل کرنے ہیں ، پہلے ہی بجلی کی مد میں ہمارے صوبے میں اپنا بہت بڑا حصہ ڈالا ہوا ہے اور آگے بھی ڈالے گا، مسلم لیگ(ن)کے رہنماء اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی جانب سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امین گنڈا پور کی وزیر اعظم سے ملاقات کا خیر مقدم اور وزیر اعظم کی جانب سے بھی انہی جذبات کا ا ظہار جن کا اظہار ابھی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کیا ہے، حکومتی سطح پرایک دوسرے سے بہتر تعلقات کی بجا طور پر توقع ہے جو دونوں کی ضرورت اور وقت کا تقاضا بھی ہے۔ وزیر اعظم نے یقین دلایا ہے کہ خیبر پختونخوا کے جو بھی واجبات ہیں ان کو وفاقی حکومت ادا کرے گی اور اس کیلئے انہوں نے آئی ایم ایف مذاکرات ختم ہونے کے بعد 19تاریخ کو وزارت خزانہ کے افسران کو پابند کیاہے کہ وہ خیبر پختونخوا کے متعلقہ افسران کے ساتھ بیٹھ کر واجبات کا معاملہ طے کریں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے وزیر اعظم کی خیبر پختونخوا آمد پر ملاقات نہ ہونے کے حوالے سے بھی مثبت بات کی۔ ماضی میں پنجاب اور مرکز کے کشیدہ تعلقات اور خیبر پختونخوا کے ساتھ مرکزی حکومت کی سرد مہری جیسے تلخ تجربات وفاقی حکومت اور صوبے کی دونوں حکومتوں کے سامنے ہیںجس کے ملکی نظام اور سیاست و اجتماعی ماحول و ملک و قوم پر جو اثرات مرتب ہوئے، اس طرح کے حالات کا جس جانب سے بھی اعادہ ہوتا ہو تکلیف دہ امر ہوتا۔یہ ملاقات تو روایت اور دستور کے مطابق ہوئی اور اگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس سے ہٹ کر بھی کوئی رابطہ کرتے تو بھی نامناسب ہوتا ،مفاہمانہ قدم خواہ وہ مرکز سے صوبوں کی طرف اٹھے یا صوبے سے مرکز کی طرف اٹھے احسن اور قابل تعریف ہی ٹھہر ے گا ۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بطور صدر تحریک انصاف اور ایک سیاسی لیڈر سیاسی طور پر جوبھی مؤقف ہو وہ اپنی جگہ اور اس کی تھوڑی بہت گنجائش بھی ہوتی ہے لیکن سیاسی طور پر بھی بہرحال اعتدال کے ساتھ ہی مخالفت مستحسن ہوتی ہے، بطور وزیر اعلیٰ وہ پورے صوبے کے نمائندے اور ذمہ دار شخصیت ہیں اور یہ صوبے کے عوام کے مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ مرکز سے اس درجے کے تعلقات ضرور استوار رکھیں کہ صوبائی معاملات اور صوبے کا مقدمہ خوش اسلوبی سے اور اچھی فضا میں لڑ سکیں ۔وزیر اعلیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات پر ان کی جانب سے باہمی معاملات کے حل کی یقین دہانی اور اس حوالے سے باقاعدہ طریقہ کار وضع کرکے معاملات کو آگے بڑھانے کی یقین دہانی مرکز کی جانب سے مثبت جواب ہے ،وفاقی وزیر احسن اقبال کا اس ملاقات کا خیر مقدم حکومتی سطح کیساتھ ساتھ سیاسی سطح پر نہایت مثبت پیغام ہے ،جس سے توقع وابستہ کرنے کی امید کی جا سکتی ہے کہ حکومتی معاملات پربات چیت و معاملات پراعتماد کی پیدا ہونے والی فضا کے سیاسی ماحول پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ،حکومتی مفاہمت سے سیاسی مفاہمت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جو قومی مفاہمت پرمنتج ہوجائے توحکومت وسیاست اور عوام ہر سطح پراس کے اچھے اثرات مرتب ہوںگے گزشتہ روز کی ملاقات سے بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ” اور کھل جائیں دو چار ملاقاتوں کے بعد” ۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے جن امور کو سامنے رکھا ہے وہ صوبے کے دیرینہ حل طلب مسائل ہیں ،لیکن مشکل اتنے کہ خود ان کی اپنی جماعت کے صوبے اور مرکز میں حکومت ہونے کے باوجود بھی اس ضمن میں پیشرفت نہ ہو سکی تھی، لیکن اب وقت اور حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ غلط فہمیوں کے ازالے اور ملکی سطح پر کشیدگی پرمبنی حالات کو معمول پرلانے کی سعی کے طور پر مرکز اور صوبے کے تعلقات میں بہتری لائی جائے ،اس کی ابتداء ”حق بہ حقداررسید سے ہوتو یہ ہم خرما وہم ثواب ”کے مصداق ہوگا۔

مزید پڑھیں:  صبر و تحمل سے کام لیں