محافظین قانون کے کرتوت

پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان نے کہا ہے کہ پولیس افسر اشتہاریوں کو تحفظ دے رہے ہیں ایسا نہیں چلے گا۔قبل ازیں درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ2015میں چارسدہ عمر زئی کے تھانہ میں کانسٹیبل کے خلاف قتل اور اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن ابھی تک پولیس نے کانسٹیبل کو گرفتار کیا نہ ہی کوئی محکمانہ کارروائی کی ہے جبکہ پولیس اہلکار کو چارسدہ کی سیشن عدالت نے اشتہاری بھی قرار دیا ہے۔ اس دوران عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ کانسٹیبل ایک ڈی آئی جی کے ساتھ گن مین ہے جو اس کوتحفظ دے رہا ہے۔جب قانون کے محافظین ہی قانون شکنی پر اتر آئیں اور عدالت اس طرح کے ریمارکس دے تو پھر قانون کے پاسبانوں پر عوام کیسے اعتماد اور اطمینان کا اظہار کرے یہ پہلا واقعہ نہیںسانحہ مندنی میں بھی سابق اعلیٰ پولیس افسر کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ملاکنڈ میںاپنے قتل سے قبل مقتول نے ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں خانہ خدا میں کھڑے ہو کرسچ بولا اور پھر خطرے سے خبردار کرتے ہوئے تحفظ کامطالبہ کیا مگراسے قتل ہونے دیا گیا جس کے بعد عوامی اشتعال اوردبائو پر کارروائی کی گئی جو سانپ کے گزرنے پر لکیر پیٹنے کے مترادف ہے یہ سارا عمل معاشرے کی لاقانونیت پر دال ہے جس کا ادراک حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہونا چاہئے عدالتیں بسا اوقات برہمی کا اظہار کرتی ہیں عوام احتجاج کرتے ہیں مگر جن ذمہ دار عہدیداروں پر اصلاح احوال کے ٹھوس اقدامات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اس طرح کے ناانصافی پرمبنی واقعات ہی معاشرے میں انتہا پسندی کا ماحول پیدا کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا باعث بنتے ہیں جس سے اگر احتراز اور ان کی روک تھام مطلوب ہے تو قانون کا یکساں نظام رائج کئے بغیر اور بلا امتیاز احتساب کے علاوہ ممکن نہیں۔
معدوم ہوتا تاریخی ورثہ
تاریخی مقام گھنٹہ گھر کے حلیہ بگاڑنے کی جو تصویر ہمارے نمائندے نے پیش کی ہے اس کے مطابق کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جانے والا ہیرٹیج ٹریل کچھ ہی عرصہ میں مچھلی منڈی کی وجہ سے تباہ ہوگیا ہے، گھنٹہ گھر جس کی اپنی تاریخی حیثیت ہے لیکن لوگ اب اسے مچھلی منڈی کے نام سے جاننے لگے ہیں، تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے کچھ عرصہ قبل انتظامیہ نے مچھلی فروشوں کو دکانوں کے اندر شیشے لگانے کا کہا تھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد دکانداروں نے شیشے ہٹا دیئے نوٹس میں لانے کے باوجودانتظامیہ کارروائی نہیں کر رہی ہے مقامی لوگوں کے مطابق انتظامیہ میں موجود چند افراد کو باقاعدہ دکانداروں اور ہتھ ریڑھی والوں کی جانب سے بھتہ وصول کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی۔حکومت ایک جانب احیائے پشاور کے نام سے کروڑوں روپے کے مصرف سے صوبائی دارالحکومت کی بحالی و بہتری کے لئے کوشاں ہے ہیریٹیج ٹریل زرکثیر صرف کرکے بنائی گئی تھی لیکن اس کے بعد انتظامیہ کی غفلت کے باعث اسے رکشوں کی گزر گاہ اور مچھلی منڈی بنا دیا گ یا ہے اور روز بروز اس کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے جو فوری نوٹس لینے کا حامل معاملہ ہے بلاشبہ حکومتی اراکین کی زیادہ توجہ بلدیاتی انتخابات پر مرکوز ہے اس کے باجود وقت کا تقاضا ہے کہ اس قدیم ورثے اور تاریخی مقام کی حفاظت پر توجہ دی جائے اور کسی مصلحت کا شکار نہ ہواجائے عوام کے لئے بھی یہ مناسب موقع ہے کہ وہ ووٹ مانگنے آنے والوں سے پشاور کے تاریخی مقامات کے تحفظ وتزئیں اور بحالی کا حلف لینے کے بعد ان کی حمایت کاوعدہ کریں۔
تحقیق سے استفادہ کے تقاضے
ہائیر ایجوکیشن نے عملی زندگی میں تحقیق سے فائدہ اٹھانے کے لئے سرکاری اداروں سے تجاویز طلب کر لیں تعلیمی اداروں میں تحقیق کے ساتھ ساتھ عملی تربیت کو بھی مزید تقویت دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی اس جانب توجہ خو ش آئند امر ہے لیکن ساتھ ہی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تحقیقی امور کے لئے درکار وسائل کی فراہمی اور تحقیق کرنے والے طالب علموں کو سہولیات تو درکنار وقت پر مقالہ مکمل کرنے کا موقع تک نہیں دیا جاتا۔سرکاری جامعات میں تحقیق کی نگرانی کے لئے مستقل اور تجربہ کار اساتذہ کا فقدان ہے جس کے باعث تحقیق اور تعلیم دونوں کا معیار متاثر ہو رہا ہے اس طرح کے بنیادی عوامل پر توجہ دینے کے بعد ہی تجاویز اور بہتری کے اقدامات اختیار کئے جائیں تو بہتر اور مفید رہے گا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اس بنیادی اور لازمی سیڑھی کا ترجیحی بنیادوں پر بندوبست کرنے کے بعد ہی اگلا قدم اٹھایاجائے گا جب تک نقائص اور مسائل موجود ہیں تب تک کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!