p613 319

محروم اضلاع میں ترجیحی بنیاد پر کالج بنائے جائیں

خیبر پختونخوا کا ضلع تور غر اور بیشتر دیگر تحصیلیں اکیسویں صدی میں مردانہ اور زنانہ ڈگری کالجز سے محروم ہیں۔ ماضی میں سیاسی بنیادوں پر کالجز، بنیادی مراکز صحت، فنی تعلیم کے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کیلئے کوئی معیار نہیں رکھا گیا کہ وہاں پر ضرورت ہے یا نہیں۔اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ جہاں پر ضرورت ہو وہاں کالج تعمیر کیا جائے ۔ حکومت کی یہ یقین دہانی مثبت ہے کہ پندرہ کالجوں کی تعمیر کے جائزے کیلئے آزاد کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو فزیبلٹی دیکھیں گے اور ضرورت کی بنیاد پر وہاں کالج کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہاں حقیقی معنوں میں ضرورت ہو اور سیاسی اورذاتی خواہش پر کسی کے حلقہ میں کالج تعمیر نہیں ہوگا ۔اس میں دو رائے نہیں کہ جن پسماندہ اور محروم علاقوں میں سرے سے کالج موجود ہی نہیں وہاں پر ترجیحی بنیادوں پر کالجز بنائے جائیں اس دور میں جہاں اضلاع کی سطح پر جامعات بن رہی ہیںکسی ضلع میں کالج ہی موجود نہ ہونا سراسر ناانصافی ہے ، ماضی کی حکومتوں کی جانب سے تعلیم اور طلبہ سے اس قدر ناانصافی افسوسناک امر ہے جس پر ان اضلاع کے عوام کو موقع ملنے پر ان کا احتساب کرنے کیلئے متحد ہو کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ عوام غافل نہیں۔ جہاں تک موجودہ حکومت کی ذمہ داری کا سوال ہے اس حوالے سے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرکے موزوں اور ضرورت کے حامل علاقوں کے موزوں مقامات پر کالجوں کی تعمیر دوسری ترجیح ہونی چاہئے پہلی ترجیح میں فوری طور پر محروم اضلاع میں کالج تعمیر کئے جائیں ساتھ ساتھ اس امر کا بھی جائزہ لیا جائے کہ ہائی سکول اور ہائیرسکینڈری سکولوں کی کس حد تک ضرورت ہے۔ پرائمری اور مڈل سکولوں کے قیام میں بھی محروم اضلاع کو خصوصی حصہ ملنا چاہئے۔
عدم برداشت کی حد
قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں سابق وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی کے درمیان جس طرح کے جملوں کا تبادلہ ہوا ہے اس سے سیاسی کشیدگی کا اظہار تو فطری امر ہے لیکن سیاست میں اس قدر تلخی اور اس طرح کے جملوں کا تبادلہ عدم برداشت کی حد ہے جس کی سیاستدانوں سے توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ سابق وزیراعظم عمومی طور پر کوئی ناشائستہ شخص نہیں اور نہ ہی سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کے پانچ سال سپیکر رہنے کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر بننے والے اسد قیصرتند خو ہیں، رمضان المبارک برداشت اور تحمل کا مہینہ ہے اور ایوان میں جو مسئلہ لایا گیا تھا وہ حساس تھا جس پر مشاورت درمشاورت کی ضرورت تھی، اب جبکہ اسے کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے تو توقع ہے کہ اس پر ہر پہلو سے غور وخوض کیا جائے گا۔ ممبران پارلیمان کو آداب اور پارلیمانی روایات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے اور تحمل وبرداشت اور احترام کے جذبات کا دونوں طرف سے خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
دوبارہ ٹیسٹ کیلئے جلد اقدامات کئے جائیں
اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن رکن کے سوال پروزیر تعلیم شہرام ترکئی نے کہا کہ این ٹی ایس کے حوالے سے پی ایس ٹی آسامیوں کیلئے تحریری امتحان سے متعلق جو شکایات حکومت کو موصول ہوئی تھیں وہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ محکمہ تعلیم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ این ٹی ایس کے حکام کو بلائے اور انہیں پی ایس ٹی آسامیوں کیلئے دوبارہ امتحان سے متعلق ہدایت دے ۔ پی ایس ٹی آسامیوں کے ٹیسٹ میں گھپلوں کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کر کے سزا دینے کے حوالے سے اعلی سطح پر یقین دہانی کے باوجود اس حوالے سے پیشرفت میں تاخیر لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو جہاں ٹیسٹنگ ایجنسی کیخلاف شفاف تحقیقات مکمل کرنے پر توجہ دینی چاہئے ساتھ ساتھ ان آسامیوں کیلئے دوبارہ کسی قابل اعتماد ایجنسی کی خدمات حاصل کرکے سارے عمل کی سرکاری نگرانی بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ امیدوار اچھے اور بااعتماد ماحول میں ٹیسٹ دے سکیں اور ان کو نتائج پر اعتراض واحتجاج کی ضرورت نہ پڑے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی