مدت سے آروز تھی کہ سیدھا کرے کوئی

تو درون درچہ کردی کہ بیرون خانہ آئی’ فارسی زبان میں کہی ہوئی بات ڈالر کی بے پناہ اڑان سے یاد آگئی ‘ مفتاح اسماعیل کی وزارت خزانہ کے دور میں ان کی تمام وہ کوششیں جوتحریک انصاف حکومت کی ملکی معیشت کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کو قابو میں لانے کے لئے کی جا رہی تھیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہورہی تھیں اور پارٹی کے اندرسے بھی ان پر ”ہلکی پھلکی موسیقی” کی طرز پر تبرہ تولا جارہا تھا جبکہ مخالف سیاسی جماعت کے تیور تو خاصے تیکھے تھے ‘ ایسے میں ہر طرف سے اسحاق ڈار صاحب کے نام کی دہائی دی جارہی تھی کہ کسی طور ان کو واپس لایا جائے کیونکہ عمومی خیال یہ تھا کہ ڈالر کو صرف اسحاق ڈار ہی قابو کرسکتے ہیں ‘ اس دوران ایسی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ طاقتور حلقوں نے لندن میں بیٹھے اسحاق ڈار کو بجٹ کے خدوخال ترتیب دینے کی ”ہدایات” دیدی ہیں ‘ ان اطلاعات میں کس حد تک سچائی تھی یہ تو نہیں معلوم البتہ اس قسم کی خبریں مفتاح اسماعیل اوران کے قریبی حلقوں کے لئے باعث تشویش تھیں ‘ حالانکہ مفتاح اسماعیل ایوان کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ وزارت خزانہ کے انچارج کے منصب پر رہ سکتے تھے ‘ تاہم اس کے بعدا نہیں بطور مشیر اپنا کام جاری رھنے کو کہا جاسکتا تھا لیکن پارٹی کے اندر بعض حلقے اسحاق ڈار کولانے پر مصر تھے ‘ خاص طور پر بڑے میاں صاحب کے سمدھی ہونے کے ناتے ایک تیر سے دو شکار کرنے والوں کا مطمع نظر یہ تھا کہ ایک جانب میاں صاحب کوخوش کیا جائے تودوسری جانب مفتاح اسماعیل سے جان چھڑا لی جائے ‘ جبکہ اسحاق ڈار کی واپسی کے حوالے سے کچھ رکاوٹیں تھیں جنہیں دور کئے بناء ان کا وطن واپس آنا اگرچہ ناممکن تو نہیں لیکن مشکل امر تھا کیونکہ ادھر عمران حکومت کے دور میں ان کی جائیداد بحق سرکار ضبط کی جا چکی تھی اور ان پر قانونی قدغنیں بھی تھیں ‘ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے اگرچہ سیاسی پناہ توحاصل نہیں کی تھی حالانکہ اس حوالے سے ان پر بہت دبائو بھی تھا اور وہ کچھ عرصہ زیر علاج بھی رہے تھے ‘ بعد میں جب وہ لندن کی گلیوں ‘ بازاروں میں آتے تو وہاں موجود عمران کے حامی ان پرآوازیں کستے دیکھے جاتے ‘ بہرحال پارٹی نے ان کو واپسی کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا تو وہ ڈالر کو لگام دینے کے لئے وطن لوٹ آئے اور کچھ قانونی پیچیدگیاں دور کرنے کے بعد نہ صرف انہوں نے سینٹ کی رکنیت کا حلف اٹھا لیا بلکہ وزارت خزانہ کا قلمدان بھی ان کے سپرد کرکے انہیں ڈالر کے مقابلے کے لئے میدان میں اتارا گیا جبکہ ابتداء ہی میں انہوں نے ڈالر پر ایسا دھوبی پٹرا مارا کہ ڈالر کو چت کر دیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب ڈالر بے قابو ہونے کی کوشش نہیں کرے گا ‘ اور کرے گا بھی تو اسے منہ کی کھانی پڑے گی ‘ لندن میں قیام کے دوران ہی جب اسحاق ڈار ایک ہسپتال میں بستر علالت پر پڑے تھے اور ملک کے اندرعمران خان حکومت کے وقت ڈالر بے قابو ہو رہا تھا تو ڈالراور اسحاق ڈار کاموازانہ کرتے ہوئے پاکستان کے ایک جید صحافی نذیر ناجی نے میر تقی میر کے ایک شعر کی پیروڈی ان الفاظ میں لکھی تھی کہ
سرہانے ڈار کے آہستہ بولو
ابھی ٹک گنتے گنتے سوگیا ہے
بہرحال صورتحال اب یہ ہے کہ پہلے اسحاق ڈار ڈالر کو قابو کرلیتے تھے لیکن اب ڈالر کسی کے
قابو میں نہیں آرہا بلکہ اس قدر بے قابو ہوچکا ہے کہ خود اسحاق ڈار صاحب کو بھی تسلیم کرنا پڑ گیا اورگزشتہ روزاسلام آباد میں گرین لائن ‘ ٹرین کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے’ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان معاشی دلدل میں ہے ‘ انشاء اللہ اس دلدل سے نکل جائیں گے ۔ استحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ ا للہ تعالیٰ نے پاکستان کو دنیا میں رہنے کے لئے قائم کیا ہے یہ واحد ملک ہے جوکلمہ طیبہ کے نام پربنا تھا ‘ اگر اللہ نے پاکستان بنایا ہے تواس کی حفاظت ‘ ترقی اور خوشحالی بھی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔ بطور قوم ہمیں سخت محنت کرنی ہوگی ‘ انہوں نے کہا کہ پانچ سال میں پاکستان کی معیشت تباہ کی گئی مگر اتحادی جماعتوںکی حکومت اگلے انتخابات تک بہتری لانے کی خواہاں ہے اسحاق ڈار کے ارشادات عالیہ اپنی جگہ تاہم انہیں اور اتحادی جماعتوں کو اب اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ ڈالر کیسے بے قابو ہوا ‘ یہاں تک کہ صورتحال اس حد تک بگڑ گئی کہ نہ صرف ڈالر نے سرکارکے کس بل نکال دیئے بلکہ آئی ایم ایف نے ”حکم” صادر کر دیا ہے کہ ڈالر کو ”ڈار کی گرفت” میں جانے سے روکا جائے ‘ ادھر تواتر کے ساتھ اطلاعات آرہی ہیں کہ ڈالر کی سمگلنگ جاری ہے ‘ پہلے لانچوں کے ذریعے ملک سے ڈالر خلیجی ممالک منتقل کئے جانے کی اطلاعات تھیں ‘ پھر ایک”ٹائیکون” کے جہاز میں ڈالراڑان بھرتے ہوئے دوبئی وغیرہ میں پناہ گزین ہونے کی خبریں آتی رہیں جن میں ایک خاتون اوران کا مبینہ نیٹ ورک ملوث تھا ‘ اور گزشتہ کچھ عرصے سے ڈالراونچی نیچی راہوں پرچل کرافغانستان پہنچائے جارہے ہیں جہاں سے یہ آگے بھیج دیئے جاتے یں ‘ ان میں ملوث کئی مکروہ چہرے اب ”معلوم” کے زمرے میں شامل ہیں لیکن ان پرہاتھ ڈالنے اور ملک کو نئی تباہی سے دو چار کرنے کی راہ میں ناکے لگانے کی کسی کوبھی فکر نہیں ہے حالانکہ ڈالر توایک عرصے سے یہی کہہ رہا تھا کہ
اقبال ترے عشق نے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
تاہم وہ جوڈالر کو سیدھا کرنے کی آرزو دلوں میں مچل رہی تھی ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ حلقوں اور خصوصاً اسحاق ڈار کے اندرڈالر کومطیع کرنے کے حوالے سے پلنے والے”تکبر اور غرور” نے ساری تدبیریں الٹا کر رکھ دیں یعنی
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
تکبر اورغرور اللہ کوپسند نہیں اور عاجزی وانکساری سے خالق کل کائنات خوش ہوکر اپنے بندوں کو نواز دیتا ہے ‘ یہاں مگر ہمارے ہاں صورتحال ہمیشہ الٹ ہوتی ہے یعنی گنگا ہمیشہ الٹی بہتی ہے اور بانس بھی الٹے بریلی کو ارسال کئے جاتے ہیں بقول کلیم عاجز
سامان زندگی جو فقیرانہ ہو ‘تو ہو
تیور ہرایک حال میں شاہانہ چاہئے
موجودہ صورتحال پر سوشل میڈیا بھی خاموش نہیں رہا اور تبصروں کی نیرنگی دیکھنے کے قابل ہے ‘ جونہ صرف اسحاق ڈار بلکہ میاں نواز شریف کو بھی طنزکے تیر چلا کران کی خبر لے رہے ہیں ‘ ایک خبر کی سرخی یوں لگائی گئی ہے کہ ”کہتے تھے ڈالر دو سو سے نیچے آئے گا ‘ وہ تو 260 سے بھی اوپر چلاگیا ‘ سمدھی کا جادو نہیں چل سکا ‘ اب خاندان میں کوئی اور ماہر معیشت دیکھ لیں”۔ گویا بقول شاعر
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے