مذاکرات اور پنجہ آزمائی

ایک جانب مذاکرات ہو رہے ہیں اور دوسری جانبپاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں بڑی تحریک اور لانگ مارچ کا عندیہ دے دیا ہے کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف مذاکرات کی کامیابی چاہتی ہے لیکن ناکامی کی صورت میں حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں عوام بڑی تحریک کیلئے تیار ہو جائیں۔ تحریک کا آغاز لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں ریلی سے ہو رہا ہے، اس کا نقطہ عروج ایک تاریخی لانگ مارچ ہوگا۔ واضح رہے کہ حکومتی اور تحریکِ انصاف کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے دو بیٹھکیں ہو چکی ہیں۔دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف احتجاج کرے تاکہ یہ مذاکرات تو ختم ہوں۔خواجہ آصف کا مذاکرات سے متعلق مزید کہنا تھا کہ پتا نہیں جائز طریقے سے بٹھایا گیا ہے یا ناجائز طریقے سے۔ یہ تو ہم اتمامِ حجت کر رہے ہیں۔ باقی ان سے کیا نتیجہ نکلنا ہے، پچھلے ایک سال میں کیا نتیجہ نکلا ہے۔ عمران خان نے جو کرنا ہے کر لے تاکہ انھیں کوئی گلہ نہ رہے۔ انھوں نے وزیر آباد والا لانگ مارچ بھی کسی کے کہنے پر کیا تھا۔انھوں نے پہلے اسمبلیوں سے استعفے دئیے، آج اسمبلیوں میں بیٹھے ہوتے تو ہمیں مسئلہ ہوتا، اس کے ہر فیصلے سے ہمیں سیاسی فائدہ ہو رہا ہے۔اگرچہ یہ ایک مخالف کی آواز ہے لیکن اس کی حقیقت سے یہ تنقید نہیں بلکہ اصلاحی جملے لگتے ہیں جو قابل توجہ ہیں بہرحال تحریک انصاف کی قیادت کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ دو چیزیں بیک وقت شروع کرتی ہے اور کسی ایک حکمت عملی پر پوری توجہ نہ ہونے اور مشاورت کی کمی کے باعث ہر دو مہم کامیاب نہیں ہو پاتی کتنی ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں اس غلطی کا اعادہ نظر آئے گا ایک طرف مفاہمت اور دوسری طرف دبائو ڈالنے کی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اس مرتبہ پی ڈی ایم کی قیادت بھی بیک وقت دو محاذ کھولنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے پی ڈی ایم کے سربراہ کسی طور بھی اور نہ صرف ان مذاکرات بلکہ کسی بھی عوامی فورم پر جہاں تحریک انصاف کی نمائندگی ہو نہ بیٹھنے کا نہ صرف علی الاعلان کہہ چکی ہے بلکہ عملی طور پر بھی اس کا رویہ سخت اور جارحانہ ہے تحریک انصاف کی قیادت کے عادی حکمت عملی کے برعکس دوسری جانب حکمران جماعت مسلم لیگ نون بھی کسی طور بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں خواجہ آصف کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں مذاکرات سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ سیاسی طور پر وہ اس کا بار خود اٹھانے کی بجائے تحریک انصاف پرڈالتے ہیں کہ ان کی جانب سے ایسے اقدامات سامنے آئیں جن کو بنیاد بنا کر مذاکرات کا عمل لپیٹ دیا جائے ایسے میں پی ڈی ایم کی دیگر معتدل جماعتوں کو چھوڑ کر جے یو آئی اور مسلم لیگ نون کا ایک حصہ پی ٹی آئی کے حوالے سے ہم خیالی میں اور وہ کسی حد تک بھی جانے کے لئے تیار ہیں۔مشکل امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت خود اس میدان میں کھیلنے جارہی ہے جس میں سیاسی مخالفین ان کو اتارنا چاہتے ہیں اس حوالے سے وفاقی وزیر احسن ا قبال نے بڑا واضح کہا ہے کہ محاذ آرائی میں نقصان تحریک انصاف ہی کا ہو گا اور حکومت کو آئین کے مطابق انتخابات کو ایک سال آگے بڑھانے کا موقع ملے گا۔ ان تمام سیاسی عوامل اور ملک میں سیاسی انتشار کی کیفیت میں کمی لانے کے لئے تحمل و برداشت اور سیاسی دائو پیچ سوچ سمجھ کر کھیلنے میں ہی ملک و قوم اور خود تحریک انصاف کا مفادوابستہ ہے مذاکرات کے حوالے سے کسی خوش امیدی کا اظہار تو ممکن نہیں لیکن سیاسی معاملات کا اونٹ کبھی بھی کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے لہٰذا تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی اختیار کرنا ہی سیاست ہو گی۔ احتجاجی سیاست لانگ مارچ گھیرائو جلائو کے تجربات بہت ہو چکے حکومت اور تحریک انصاف ہر دوکی جانب سے ملک کو جس طرح تختہ مشق بنا دیا گیا ہے اس سے اشرافیہ تو متاثر نہیں ہوتی ملک کے عوام کو ہی ہر قسم کے حالات کو بھگتنا پڑتا ہے سیاسی معاملات سیاسی طور طریقوں سے اور مذاکرات کی میز پر سیاستدان کس طرح حل کرتے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن ملک میں انتشار پھیلا کر عوام کومزید مشکلات کا شکار بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی یہ بائیس کروڑ سے زائد عوام کا ملک ہے چند سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی جاگیر نہیں کہ وہ آپس کی لڑائی میں ملک کودائو پرلگائیں۔سیاستدانوں کو صرف اپنے سیاسی مفادات سے غرض نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کو عوام اور ملک کے مسائل کے حل پر بھی توجہ دینے کی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس