مذہب کے استعمال کے بارے میں آراء کا جائزہ

پچھلے دنوں سیالکوٹ کے غیر انسانی اور معتصب ‘ جہالت اور مفادات پر مبنی بدقسمت واقعے نے پاکستان میں ایک دفعہ پھر اس بحث کو تقویت دی ہے کہ سیاست اور انفرادی و اجتماعی معاملات میں مذہب کا ا ستعمال کہاں تک جائز اور صحیح ہے اور کہاں اس کے استعمال کے حدود ختم ہوجاتے ہیں پچھلے دنوں ان ہی سطور میں عرض کیاگیا تھا کہ قیام پاکستان کے دوران ہی یہ بحث بہت زور و شور کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ مسلم لیگ سے وابستہ سیاستدانوں کی اکثریت اور بعض مستند اور مشہور ومعروف علماء ہند نے اسی بنیاد پر تحریک پاکستان کو آگے بڑھایا تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ‘ جیسے نعرے تحریک پاکستان کے پس منظر میں آج بھی ہماری تاریخ کی کتابوں میں دج ہیں۔ ”محمد علی جناح جیسی جدید ذہن و فکر کی مالک اور لندن کے فضاء میں پلنے ‘ بڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مذہب کی طاقت کو استعمال کئے بغیر نہ رہ سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی بنیاد اساس دین پر ہے اور اسلام ایک جامع و کامل دین ہونے کی بناء پر انسان کے کل مسائل ومعاملات میں رہنمائی کے لئے کافی شافی ہے۔خاتم النبینۖ کی احادیث مبارکہ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ بنی اسرائیل کے انبیاء اپنے زمانے کے سیاستدان تھے ۔ سیاست کا لفظ اپنے صحیح معانی میں بہت تقدس کا حامل ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کی سیاست دین کے احکام و تعلیمات کے مطابق رہی ہے اور ہونی چاہئے۔
مسئلہ تب پیدا ہوا جب خلافت ‘ ملکوکیت میں تبدیل ہوئی تو مسلمانوں کے حکمرانوں نے ملکی معاملات یعنی سیاسی امور میں اپنی مرضی ومنشا و خواہشات کو دستور و آئین کا حصہ بنایا اور قرآن و سنت کی تعلیمات و احکام کو موخر رکھا ۔ بنی امیہ بنی عباس اور بعد کے سارے مسلمان حکمرانوں نے سیاست و مذہب کے درمیان فرق روا رکھنا شروع کیا ‘ لیکن جہاں کہیں اور جب کہیں مذہب کے استعمال کو اپنے ملکی اور اقتدار کے استحکام وتسلسل کے لئے ضروری سمجھا وہاں اس نے ایک بہت بڑے پارسا ‘ عالم اور اسلام کو عزیز از جان رکھنے کے مظاہرے سے گریز نہیں کیا۔پاکستان کے کم و بیش سارے حکمران اپنی فطرت و سرشت میں لبرل اور آزاد طبع رہے ہیں لیکن جب کبھی ضرورت پڑی ہے ‘ انہوں نے دین و مذہب ہی سے تقویت حاصل کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کی ۔ جنرل ایوب خان ‘ دستور پاکستان اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارشل لاء کا نفاد کرایا لیکن بھارت کے ساتھ 1965ء کی جنگ میں قوم سے خطاب میں مذہبی جذبے ہی کو بروئے کارلایا’ اور اس طرح کرنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ یہ عین ثواب ہے ۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک لبرل سیاست دان تھے ۔ لیکن جب پی این اے کی تحریک نے زور پکڑی ‘ تو جمعہ کی چھٹی ‘ شراب پرپابندی اور سب سے بڑا دینی کارنامہ کہ قادیانیوں کوغیرمسلم قرار دینا بھی ان ہی کی یادگار ہے ۔ جنرل ضیاء الحق تو اپنی انفرادی زندگی میں شروع سے ہی مذہبی واقع ہوئے تھے اور بھٹو صاحب نے ان کے مذہبی پس منظر ہی کے سبب سینئر جرنیلوں پر سبقت دیتے ہوئے چیف بنایا۔ جنرل ضیاء الحق نے90دن کے اندر انتخابات کرانے کے وعدے کو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے لئے گیارہ برس تک اپنی مرضی کا اسلام کانفاذ کرنے میں گزارے ۔ ان کے عہد اقتدار میں افغانستان اور روس کے درمیان جنگ میں مذہب کا کارڈ جس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا گیا اس کے مثبت اور منفی پہلوئوں اور مذہب کے جائز وناجائز استعمال پر آج بھی گرما گرم بحثوں کے علاوہ سینکڑوں کتب لکھی جا چکی ہیں۔
نواز شریف کے دور میں تو آپ کو یہ مشورے بھی دیئے جانے لگے تھے کہ امیر المومنین ہونے کا اعلان فرمائیں ۔ پی پی پی اپنی سرشت ودانست میں ایک ترقی پسند سیاسی جماعت ہے۔ لیکن اپنے مقاصد و مفادات کے حصول کے لئے ایسے مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی اتحاد کرتے نظر آئے ہیں جن کے بزرگوں کا واضح و صریح فتویٰ موجود ہے کہ عورت کی حکمرانی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
عمران خان مغرب کے گود میں پلے بڑھے اور آزاد طبیعت کے حامل ہونے کے سبب یہودی خاتون اور بعد میں ایک الٹرا ماڈل خاتون سے نکاح کے بندھن میں بندھ گئے ‘ لیکن اقتدار میں آئے تو مدنی ریاست کے قیام کے نعرے کے ساتھ پاکستان کے مشہور مسلک سے وابستہ ایک کٹر مذہبی خاتون سے شادی کی ۔اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں مذہبی ‘ سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی واضح نصب العین کی حامی جماعت بھی پی ٹی آئی اور اپنے مسلک و پس منظر کی کٹر مخالف مذہبی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد اور اقتدار کے مزے بھی لوٹ چکی ہے ۔ جمعیت العلماء اسلام تورند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی کے مصداق ہر قسم کی سیاسی جماعت کے ساتھ نبھانا جانتی ہے ۔ اس لئے مذہبی سیاسی جماعتوں میں سب سے کامیاب جماعت ہے ۔ لیکن اس وقت پاکستان میں سیاست و مذہب کے درمیان ایک عنصر کے طور پرٹی ایل پی نے جو انٹری ماری ہے اس نے بڑے بڑوں کو حیران و پریشان کرنے کے علاوہ مذہب کے جائز وناجائز استعمال کے سوالات کو بہت شد ومد کے ساتھ اٹھایا ہے ۔ پچھلے دنوں کئی پولیس کے اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار کراپنے کچھ لوگوں کوبھی شہادت سے ہم کنارکرنے کے سبب کالعدم بھی قرار پائی ‘ لیکن بہت جلد دوبارہ بحال ہوئی اب عوام کے اذہان میں سوالات تو کھلبلاتے ہیں نا کہ یا الٰہی ماجرا کیا ہے؟ وزیر اعظم نے پچھلے دنوں ملک عدنان کو تمغہ شجاعت دیتے ہوئے جو تقریر کی ‘ اس میں یہ جملہ بہت قابل غور ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں اس کے بعد مذہب کا غلط استعمال نہیں ہونے دوں گا ۔ کیا واقعی یہ اتنا آسان کام ہے ؟ ان حالات میں کہ پاکستان کے مدارس ‘ سکول ‘ کالجوں اور جامعات میں اپنے اپنے مسلک اور مذاہب کی ترویج کے لئے بہت زور و شور سے کام جاری ہے اور اس کو جب چمک و سیاست کا تڑکہ بھی لگ جائے تو نشہ ‘ نشہ نہیں ہوگا تو اور کیا ہو گا؟

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو