p613 201

مسئلہ افغانستان کے حل میں اہم پیش رفت

افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امن مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔یہ فریقین کے درمیان19سالہ جنگ میں پہلا تحریری معاہدہ ہے جسے اقوام متحدہ اور امریکا نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ایک طویل اور صبرآزما سلسلہ جنبانیوں سے گزرنے کے بعد ہونے والے معاہدے سے مزید بات چیت کی راہ ہموار ہوگئی ہے جو ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ اس سے مذاکرات کار سیزفائر سمیت مزید ٹھوس مسائل پر آگے بڑھ سکیں گے۔یہ ابتدائی معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی ماہ کی بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے جسے امریکا کی بھی حمایت حاصل تھی، تاہم فریقین بھی ایک دوسرے کیخلاف حالت جنگ میں ہیں اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کی فورسز پر مسلسل حملے کیے جارہے ہیں۔واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے معاہدے کے مطابق غیر ملکی افواج کو مئی2021تک افغانستان سے نکلنا ہوگا جبکہ اس کے بدلے طالبان کی طرف سے حملے نہ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تنقید کے باوجود افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کیلئے جلدی میں نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری تک افغانستان سے مزید دوہزار فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا، تاہم ڈھائی ہزار اہلکار اس کے بعد بھی وہاں تعینات رہیں گے۔دو روز قبل جرمنی کے وزیرخارجہ ہیکو ماس نے نیٹو کو فوجیوں کے قبل ازوقت انخلا کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے ایلچی ڈیبورہ لیونز نے ٹویٹر پر اس مثبت پیشرفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیشرفت اس امن کیلئے سنگ میل ثابت ہونی چاہیے جو تمام افغانی چاہتے ہیں۔ بالآخر اب اس امر کی اُمید ہو چلی ہے کہ اب افغانستان کے مسئلے کے حل میں ایسی سنجیدہ پیشرفت ہوگئی ہے کہ کسی مرحلے پر ان کے بگڑنے کا امکان باقی نہیں۔ اس کے باوجود عالمی قوتوں کے آماجگاہ اس ملک میں کبھی بھی اور کسی بھی وقت کچھ نہ کچھ ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کی راہ صرف اسی وقت ہی پوری طرح ہموار ہوگی جب افغانستان سے بیرونی قوتیں نکل جائیں اور اس سے قبل ایسا انتظام ہوجائے کہ بین الافغان مذاکرات میں آئندہ کی حکومت سازی اور اقتدار وحکومت کا کوئی واضح اور ساری قوتوں کیلئے قابل قبول فارمولہ وضع ہو، دوسری صورت میں افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ ٹالا نہیں جاسکے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مد میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ابتدائی معاہدے پر پیشرفت پر اتفاق خوش آئند امر ہے جسے کامیاب بنانے کیلئے خطے کے ممالک اور عالمی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنے میں بخل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ایک جانب مذاکرات اور دوسری جانب افغانستان میں بدامنی کا جو عمل ہے اس کی وجوہات اور اس میں ملوث قوتوں کا مشترکہ طور پر جائزہ لینے اور ان کا ہاتھ روکنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں افغانستان کے عوام خود کو محفوظ تصور کریں وہاں باہمی اعتماد کو بھی دھچکا نہ لگے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جتنا جلد ہوسکے جنگ بندی کا تحریری معاہدہ اور اس پر عمل پیرا ہونے کا طریقہ کار ترجیحی بنیادوں پر طے ہونا چاہئے جب تک جنگ ومذاکرات کی کیفیت رہے گی اور ایک فریق دوسرے فریق پر دباؤ بڑھانے کیلئے تشدد کا سہارا لیتا رہے گا قیام امن میں پیشرفت میں تیزی نہیں آپائے گی۔ امر واقع یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اس وقت بھی افغانستان حالت جنگ میں ہے جس کے پیش نظر یہ ضروری ہوگیا ہے کہ سب سے پہلے اس صورتحال کا خاتمہ ہو۔ جہاں تک امریکی افواج کے انخلاء کا سوال ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جس سرعت اور طاقت سے افغانستان میں فوجی کارروائی شروع کی تھی ان کے اندازوں سے بڑھ کر ان کو مزاحمت اور نقصان برداشت کرنا پڑا جس کے متحمل نہ ہو کر وہ ان بنیادی مقاصد کومحفوظ بنائے بغیر ہی انخلاء کی جلدی میں ہیں۔ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کامکمل انخلاء اور اڈوں کا خاتمہ مسئلے کے حل کا بنیادی تقاضا ضرور ہے لیکن اس سے قبل متحارب فریقوں کے درمیان میثاق ضروری ہے جس کی طرف پیشرفت تو نظر آتی ہے لیکن اس کی تکمیل میں ابھی مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال