مستقل حکومت کے قیام کا تاثر

نگران حکومت کی وفاقی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب ہونے کے ساتھ انہوں نے باضابطہ طور پر ذمہ داریاں سنبھالی ہیں نگران کا بینہ کی اولین ذمہ داری بہرحال ملک میں عام انتخابات کے انعقاد تک ملکی نظام کو چلانے کا ہے اور ان کی اولین ذمہ داری بھی انتخابات ہی کے حوالے سے ہے لیکن جس انداز میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی ٹیم کا بینہ میں شامل کی گئی ہے اس سے اس منصوبے اور پروگرام کو آگے بڑھانے کا تاثر ملتا ہے ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنا کر اصلاحات کرنے کے حوالے سے باز گشت کافی عرصے سے سنی جارہی تھی البتہ اس کے قیام کی صورت اور ضرورت کے حوالے سے ابہام تھے اب بھی یقینی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا کہ نگران حکومت اپنی مدت سے تجاوز کرسکتی ہے لیکن ا بتدائی طور پرمردم شماری و حلقہ بندیوں کے معاملات بہرحال ظاہراً اور واضح طور پر نوے دن سے انتخابات تو آگے کھینچ لینے کا سبب نظر آتے ہیںنیز پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابی عمل کوجس طرح آگے بڑھانے کا سامان نظر آیا اور اس میں تاخیر کے لئے جو زمین تیار کی گئی اس کے بعد مرکز کی نگران حکومت کے حوالے سے ایسی کوئی مشکل نظر نہیں آئی کہ اسے طول دیا جائے سب سے بڑی بات یہ کہ اس کابینہ میں ماہرین کی ٹیم ہی تیار نہیں کی گئی بلکہ ان کے نام کی منظوری و حمایت میں پس پردہ سیاسی قوتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو انتخابات کا مطالبہ تو کر سکتی ہیں لیکن ان کے مطالبات کی حقیقت بے جان ہو گی اور وہ سنجیدگی کے ساتھ انتخابات پرنہ تو زور دیں گی اور نہ ہی تحریک بحالی جمہوریت ایم آر ڈی قسم کی کوئی منظم تحریک چلائیں گی اور دریا کے دونوں کناروں کی طرح ساتھ ساتھ چلیں گی بہرحال کابینہ کے بیشتر ارکان کامیاب ٹیکنوکریٹس ہیں اور یہ ان کے لیے اچھا موقعہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں استعمال کریں۔ ٹیکنوکریٹس عام لوگوں کے لیے غیر معروف ضرور ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے لیے ہرگز نہیں۔ان کا انتخاب دو بڑی سیاسی جماعتوں نے مل کر کیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات مستقبل میں ان پر پڑیں گے، لہذا انہوں نے ایسے لوگوں کی نامزدگیاں کی ہیں جو مسائل اور اہم فیصلوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ جس طرح نگراں وزیراعظم کو سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل ہے اسی طرح نگران کابینہ کے یہ ارکان بھی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کی تائید و حمایت سے منتخب ہوئے ہیں اور اہم فیصلے کریں گے۔زیادہ غیر معروف لوگوں کی نگران کابینہ میں شمولیت کی ایک بڑی وجہ سیاسی تنازعات سے بچنا ہے۔کابینہ میں غیر معروف لوگوں کی اکثریت اس لیے شامل ہے تاکہ غیرجانبداری قائم رہے- ایک کوشش کی گئی ہے کہ متنازع لوگ نہ ہوں، اور کابینہ پر کسی قسم کا اعتراض نہ آئے۔ کئی ٹیکنوکریٹس کا انتخاب بہت اچھا ہے اور وہ آنے والے وقت میں ملکی مفاد کی پالیسیاں آگے بڑھانے میں بہت مدد گار ثابت ہوں گے۔کئی غیر معروف ٹیکنو کریٹس کی کابینہ میں شمولیت کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ طویل عرصے کے لئے پالیسیاں بنائیں اور اس حوالے سے فیصلوں اور اصلاحات کو یقینی بنائیںجو مختصر مدت میں ممکن نہیں سیاسی حکومتوں کے ادوار میں اس طرح کی پالیسیاں اگر بنتی بھی رہی ہیںتو ان پر عملدرآمد کی صورتحال بہرحال مایوس کن اور کسی سے پوشید ہ نہیں اس تناظر میں جو نگران کابینہ سامنے لائی گئی ہے اس کا انتخاب تو بہرحال احسن نظر آتا ہے بشرط یہ کہ جوتوقعات اس کابینہ سے روز اول سے باندھی جارہی ہے اور عوام کو اصلاحات اور مشکلات سے نکالنے کا جوتاثردیا جارہا ہے اس پر پورا اترے۔محولہ تمام صورتحال اور حالات سے قطع نظر اصل بات ملک میں اصلاحات لانے کی حقیقی سعی کی ضرورت ہے یہ وفاقی کابینہ کے ان ماہرین کے خلوص کا امتحان ہو گا کہ وہ اپنے تجربات کس طرح دیانت کے ساتھ بروئے کار لاتے ہیں اور ملک کو مختلف قسم کے بحرانوں اور خاص طور پر معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اختیار کرتے ہیں اگردیکھا جائے تو یہ ایک آخری موقع ہے اگر خدانخواستہ یہ موقع بھی ضائع ہوا تو پھر ملکی معالات کو سنبھالنے کاآخری موقع بھی خدانخواستہ ضائع ہو گا اورملکی افق مزیداندھیروں کا شکار ہو گی جس کی بالکل بھی گنجائش نہیں۔ انتخابات آئین اور دستور کے مطابق مقررہ وقت پر ہونا لازم ہونا اپنی جگہ مگر مشکل امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں انتخابات استحکام کی بجائے بحران کاسبب بننے لگے ہیں اور سیاسی جماعتیں اور حکومتیں معاملات کو سنبھالنے میں ناکامی کا شکار ہوتی جارہی ہیں معروضی حالات اور سیاسی صورتحال میں آمدہ انتخابات سے استحکام کی توقع کی بجائے مزید سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے خدشات ہیں لیکن بہرحال بالاخر ملک کا انتظام وانصرام جمہوری طرز حکومت ہی کے حوالے سے کرنا ہوتا ہے جس کے لئے سیاسی استحکام کی راہیں بھی ساتھ ساتھ ہموار کرنے کی ذمہ داریوں کی ضرورت پڑے گی۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں