p613 338

مشترکہ اور باالحکمت مساعی کی ضرورت

پاکستان غزہ میں جنگ بندی کیلئے کوشاں ہے، اس ضمن میں وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی وزیراعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر فلسطین کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کے سفارتی مشن پر ترکی پہنچ گئے ہیں ۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سوڈان، فلسطین اور ترک وزرائے خارجہ سمیت نیویارک میں مختلف اہم شخصیات کیساتھ ملاقاتیں بھی کرینگے، دریں اثناء وفاقی کابینہ نے فلسطین کیلئے امدادی سامان بھجوانے کی منظوری دیدی ہے، منظوری کے بعد حکومت پاکستان فلسطین کے عوام کیلئے طبی سامان اور ادویات بھجوائے گی۔ فلسطینی عوام پر مظالم کیخلاف امریکی صدرجوبائیڈن کو28امریکی سینیٹرز نے خط لکھا ہے، جس میں صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔28امریکی سینیٹرز نے اپنے خط میں جانوں کا ضیاع روکنے کیلئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی صدر نے جنگ بندی کی حمایت ضرور کی تاہم اسرائیل کیخلاف سخت زبان استعمال کرنے سے نہ صرف گریز کیا گیا بلکہ اسرائیل کو فوری طور پر جنگ بندی کیلئے بھی نہیں کہا گیا۔ایک ایسے وقت میں جب فلسطینی عوام پر اسرائیل کے مظالم میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے امریکی صدر جو بائیڈن کو اپنی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کی جانب سے اس نوعیت کے سوالات کا سامنا ہے کہ امریکہ آخر اسرائیل کو کتنی امداد سالانہ دیتا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔2020میں امریکہ نے اسرائیل کو3.8ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔ یہ امداد اوباما انتظامیہ کے اس طویل مدتی وعدے کی تکمیل کا حصہ ہے جو2028تک جاری رہے گی۔کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق اس امداد کا اکثریتی حصہ فوجی معاونت کیلئے ہے۔ اس سے اسرائیل کا دفاعی نظام مضبوط کیا گیا ہے۔ اس پیسے کی مدد سے اسرائیل اب دنیا کی جدید ترین فوجوں میں سے ایک ہے۔2011سے امریکہ نے اسرائیل کو آئرن ڈوم کیلئے 1.6ارب ڈالر جاری کیے ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اسرائیل نے امریکہ سے سب سے زیادہ غیر ملکی امداد وصول کی ہے۔پاکستان کے وزیرخارجہ کی اسرائیلی مظالم رکوانے اور جنگ بندی کے حوالے سے مساعی کو امت مسلمہ کے دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہونا فطری امر ہے۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کوئی ٹھوس فیصلہ سامنے تو نہ آسکا لیکن اُمید ہے کہ سفارتی سطح پر اسلامی ممالک دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے محروم کرنے اور مظالم ڈھانے میں اس لئے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا کہ ان کی پشت پر امریکہ سمیت دیگر طاغوتی طاقتیں ہیں۔ 2020سے2028 تک کے دورانیہ کے حوالے سے اسرائیل کو فوجی معاونت کے ضمن میں امداد کا مقصد اسرائیل کے ناپاک وجود کا تحفظ اور اس کو خطے پر مسلط کرنے کے منصوبے کا واضح اظہار ہے لیکن افسوس خلیجی اور عرب ریاستوں کو اس کا نہ صرف ادراک نہیں بلکہ وہ اُلٹا اسرائیل سے تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسے بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں ۔ اسرائیل سے تعلقات کی بات ہو تو ترکی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود انقرہ اور تل ابیب میں سفارتی تعلقات ہیں، خطے میں ایران ہی واحد ملک ہے جس نے کھل کر اسرائیلی جارحیت کا دامے درمے قدمے سخنے مقابلہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پاکستان مصلحت کا شکار ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود حکومتی اور عوامی سطح پر پاکستان سے فلسطینی بھائیوں کی ہر قسم کی مدد کی توقع ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سفارتی سطح پر مساعی اس وقت ہی جلد سے جلد مؤثر ثابت ہو سکیں گی جب تمام اسلامی ممالک وزیرخارجہ پاکستان کو اپنا مشترکہ نمائندہ قرار دے کر ہر سطح پر اس کی مدد اور اسرائیل کی جارحیت اور مظالم کو رکوانے کے عزم اور ممکنہ عملی اقدامات کا ببانگ دہل اعلان کریں۔ اس کا مظاہرہ اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنے سے لیکر سفارتی تعلقات پر نظرثانی اور دیگر ممکنہ عملی اقدامات کی صورت میں جلد اور واضح طور پر ہونا چاہئے۔ مسلم ممالک مل کر اقوام متحدہ اور اسرائیل کے مربی امریکہ پر واضح کردیں کہ وہ اسرائیل کے مظالم پر مزید خاموشی نہیں رہ سکتے اور اپنے وسائل اور عوام کے جذبات کی ترجمانی کے حامل اقدامات پر مجبور ہوں گے اس طرح کے کسی سنجیدہ اور ٹھوس موقف کے اظہار کی مسلم ممالک سے توقع تو نہیں لیکن اس کی شدید خواہن تو کی جاسکتی ہے۔ مسلم ممالک مل کر کوئی ایک موقف اپنائیں تو دنیا کیلئے انہیں نظرانداز کرنا ممکن نہ ہوگا۔ یہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا یا پھر حماس اور مصروف جہاد فلسطینی عوام کی ہر سطح پر بھرپور مدد کا راستہ اختیار کرکے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔جب تک اُمت مسلمہ اُمت واحدہ بن کر اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں نہیں آئے گی اس وقت تک خواہ اسرائیل کا فلسطینیوں پر مظالم ہوں یا روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی جیسے واقعات اور حالات کی روک تھام ممکن نہ ہوگی۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج