3 399

مشکل ” ترین ” فالٹ لائن؟

عمران خان کی حکومت روزاول سے شاخِ نازک پر بنے ہوئے آشیانے کی طرح ہے۔ اس حکومت کے بیرونی مخالفین تو ایک حقیقت تھے اور ان بیرونی مخالفین کے جذبات کو مشتعل اور برانگیختہ رکھنا عمران خان کی ایک حکمت عملی تھی مگر حکومت کی تہہ میں بھی کئی زیرزمین فالٹ لائن گزر رہی تھیں۔ یہ بظاہر تو خاموش، پُرسکون رہ کر حکومت کا حصہ تھیں مگر ان کی فعالیت کو توانائی اور حرارت کا ایک اشارہ کافی تھا۔ ان میں چوہدری برادران فالٹ لائن، ایم کیو ایم فالٹ لائن، ترین فالٹ لائن بلکہ شاہ محمود فالٹ لائن سمیت کئی طرح کے نام تھے۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو عمران خان کے ہم مزاج تھے نہ ان کے سیاسی فلسفے کے قائل اور نہ ہی ان کے سرد وگرم کے ساتھی، بس انہیں وقت کی ہواؤں نے کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا اور کئی ایک تو اس انقلاب پر حیران وششدر تھے کہ ان کا یہ سفر کیسے ممکن ہوا؟ وہ اس ماحول میں خود کو حالات کا قیدی سمجھتے رہے۔ وہ بیٹھے تو عمران خان کی شاخ اقتدار پر ہیں مگر ان کے دل کہیں اور دھڑکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ان کے سب ہم مزاج ساتھی بھی وہی ہیں اور ان کے کاروباری مفادات بھی اسی جانب وابستہ ہیں۔ یہ لوگ انتظار میں ہیں کب تعلق کا یہ جبری مگر کچا دھاگہ ٹوٹ جائے اور وہ اپنے مزاج کے حامل پرندوں کی شاخ پر پہنچ کر نغمہ سرا ہوں۔ عمران خان قانون کی حکمرانی کا جو نعرہ لگائے ہوئے ہے اس کی زد پہلے پہل تو مخالفین پر پڑی مگر وہ مصر تھا کہ جلد ہی اس کی زد میں اپنے بھی آئیں گے۔ حیرت یہ ہے کہ اپنی ساکھ کے حوالے سے بے رحمی کی حد تک پہچانے جانے والے عمران خان کے موجودہ ساتھیوں کو ”غیر نصابی” سرگرمیوں میں شامل ہونے کا حوصلہ کیسے ہوتا تھا۔ انتخابات سے پہلے ایک بار عمران خان کے اولیں سیاسی ساتھی اور بہنوئی حفیظ اللہ خان کا یہ جملہ بہت دلچسپ تھا کہ ”شکر ہے میں عمران کیساتھ نہیں ہوں وہ اپنی ساکھ بنانے کیلئے سب سے پہلے مجھے پھانسی چڑھا دیتا”۔ کرکٹ کی دنیا میں تھکے ہارے ماجد خان کی قربانی تو بہت سوں کو یاد ہے، جب عمران خان نے کپتان بنتے ہی اپنے اس کزن کو عہدے سے فارغ کر کے ”نئی کرکٹ ٹیم” کی بنیاد رکھی تھی۔کسی کیلئے مال ودولت کی اہمیت ہے تو کوئی اپنی ذات اور صلاحیتوں کے آئینہ خانے کا قیدی ہوتا ہے کہ لوگ اس کو ایک مخصوص حوالے سے جانیں اور پہچانیں، عمران خان کا مسئلہ ان کی ساکھ ہے بالخصوص مالی بے ضابطگی سے دوری اور فاصلہ بلکہ بیزاری ان کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔
پی ڈی ایم کی صورت میں اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بیرونی چیلنج کے طور پر موجود تھا تو چوہدری صاحبان اور ایم کیو ایم کی صورت اندرونی فالٹ لائنز متحرک ہونے کو بے چین تھیں۔ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں چوہدری فالٹ لائن متحرک ہوئی مگر سنبھال لیا گیا، اس کے بعد ایم کیو ایم نے متحرک ہونے کی ریہرسل کی تو کسی بھونچال سے پہلے ہی غیرفعال کر دی گئی۔ پی ڈی ایم تھک ہار کر گھروں کو چل دیا۔ اس حکومت مخالف اتحاد میں وہ لفظی سرپھٹول ہوئی کہ دوبارہ سر جوڑنے کیلئے خاصا وقت درکار ہے۔ ایسے میں چینی سیکنڈل ہو اور اس کی تہہ سے جو کچھ برآمد ہوا ان میں عمران خان کے قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین کا نام بھی تھا۔ وہ اس شوگر گروپ کا حصہ تھے جو ہر سال حکومت سے سبسڈی بھی حاصل کرتا اور چینی اپنے من پسند نرخ پر بھی بیچتا جبکہ سبسڈی کا مقصد ایک مخصوص یا حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر چینی کی فروخت ہے۔ یہ سبسڈی حقیقت میں مل مالکان کیلئے نہیں عوام کیلئے دی جاتی ہے۔ مل مالکان تو ارب پتی کاروباری لوگ ہیں انہیں سبسڈی دینے کا کوئی جواز اور اختیار نہیں ہوتا۔ اس سکینڈل میں جہانگیر ترین کے نام نے عمران خان کو چکرا کر رکھ دیا۔ چینی سکینڈل عمران خان کی پہلے سے ہی ڈولتی ہوئی حکومت کو مزید ہلانے کا باعث بنا۔ حکومت کی ساکھ جو ابھی پوری طرح قائم بھی نہیں ہوئی تھی اس سکینڈل کے باعث برباد ہوگئی۔ حکومت پر نااہلی کا ایک دھبہ لگا کہ جو آج تک اُتر نہیں سکا۔ چینی کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے نے حکومت کی ساکھ کو عوام میں پانیوں پر تیرتی کاغذ کی ناؤ بنا کر رکھ دیا، اس کے بعد عمران خان اور جہانگیر ترین کے تعلقات کے شیشے میں ایسا بال آگیا جو کسی طور دور نہیں ہو سکا۔ جہانگیر ترین حکومت کیلئے ایک نئی فالٹ لائن کے طور پر اُبھر آئے ہیں۔ انہوں نے رفتہ رفتہ اپنا گروپ الگ کرنا شروع کیا۔ مرکز اور پنجاب میں اپنے الگ پارلیمانی لیڈر نامزد کئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ خیبر پختونخوا اسمبلی تک دراز ہونے جا رہا ہے، جہانگیر ترین خود کو پی ٹی آئی کا حصہ اور عمران خان کو اپنا لیڈر قرار دے رہے ہیں۔ ان کی ہمشیرہ کچھ ہی عرصہ پہلے دوبارہ سینیٹ کی رکن منتخب ہو چکی ہیں۔ عمران خان کے کچھ ساتھی جہانگیر ترین پر تابڑتوڑ حملے کر رہے ہیں کچھ تو جہانگیر ترین کو کسی دوسرے کیمپ میں دھکیلنے کو بے چین دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اشارتاً کہا ہے کہ چینی مافیا نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی مگر جھکوں گا نہیں۔ جہانگیر ترین فالٹ لائن کی فعالیت حکومت کیلئے سنجیدہ چیلنج بنتی ہے یا عمران خان اسے بھی غیرفعال کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار