مشیر احتساب سے وزیراعلیٰ پنجاب تک

اس حکومت سے کارکردگی کی اُمید تو شاید اب عمران خان کو بھی نہیں رہی ہو گی۔ شہزاد اکبر کا استعفیٰ اس بات کی دلیل ہے۔ تقریباً چار سال ہونے کو آئے اور ابھی تک کوئی خواب سچائی کی کسی منزل کی جانب چند قدم بھی نہ چل سکا۔ اس میں کسی جگہ ، ایک لمحے کے لیے بھی گذشتہ حکومتوں کے طریقۂ کار کی کوئی پذیرائی نہیں۔ نہ ہی کسی طور پر یہ ثابت کرنا کوشش ہے کہ وہ سب ٹھیک کرتے تھے اور ان سے ہی حکومت اور ریاست سنبھل نہ پائی۔ وہ بدعنوان تے اور یہ نااہل ہیں۔ ہم بحیثیت قوم بدعنوان بھی ہیں ، کاہل بھی ہیں اور ضدی بھی۔ اسے برا امتزاج ہو ہی نہیں سکتا۔ عمران خان کی ٹیم کا امتزاج کمال تھا۔ یہ نااہل ہیں، مغرور اور اپنے بارے میں خوش فہم۔ اور کسی بھی حکومت کے لیے اس سے بدترین امتزاج نہیں ہو سکتا۔ اگر اس ٹیم کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس ٹیم میں مٹھی بھر لوگ ہی قابلِ قبول تھے تو شایدمبالغہ نہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ احتساب اس حکومت کی عمارت کے بنیادی ستونوں میں شامل تھے اور چار سال ایک صاحب احتساب کے مشیر رہے اور کوئی ایک بھی جرم ثابت نہ ہو سکا ، اس میں مسلم لیگ (ن) کی کامیاب حکمت عملی کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ وہ کبھی بھی جرم خود نہیں کرتے ، وہ اپنے ہم خیال بیوروکریٹس کا ایک گروہ بناتے ہیں، انہیں نوازتے ہیں، ان کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ اور پھر انکے ہاتھوں اپنے مفاد کیلئے کام کرواتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بچت کے راستے بھی نکالتے ہیں اور اپنی سیاسی باس کے بھی۔ مسلم لیگ (ن) کاکمال یہ بھی ہے کہ اکثریت کسی سرکاری کاغذ پر کہیں دستخط نہیں کرتی۔ افسر بے شک فائل پر لکھتا رہے کہ وہ یہ کام وزیر صاحب کے پُرزور اصرار پر کر رہا ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت ہی نہیں۔ اور ایک افسر کا کہنا بس ایک شخص کی گواہی ہے جس کیخلاف دس جھوٹے گواہ کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔ پھر انکوائری کرنا ایک مکمل سائنس ہے جسے آرٹ کی طرح پوری تفصیل کی جانب توجہ دیے مکمل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی قوم کی کاہلی اور بک جانے کی خواہش یقینا شہزاد اکبر کی بہترکارکردگی کی راہ میں مانع رہی ہو گی کیونکہ خود مشیر احتساب نے تو ہر کیس پر کام نہیں کرنا تھا۔ کام تو انہی لوگوں نے کرنا تھا جو پہلے ایک پارٹی سے پیسے پکڑ کر دوسری پارٹی کے خلاف کیس بناتے ہیں اور پھر دوسری پارٹی سے سودا کر کے ، دو پارٹیوں کی آپس میں صلح کروا دیتے ہیں اور اسے سرکاری زبان میں Aimicable Solutionیا مناسب حل کا نام دیا جاتا ہے۔ دونوں پارٹیوں کی جیت اسی میں ہوتی ہے۔ اسے Win Win Solutionکہاجاتاہے۔ افسوس اس باتکا ہے کہ دونوں جانب کی جیت میں ریاست ہار جاتی ہے۔
جناب شہزاد اکبر کے استعفیٰ کے بارے میںکسی بھی بلاواسطہ رائے زنی سے اجتناب کرتے ہوئے ، اس وقت میری توجہ صرف اس امر کی جانب مرتکز ہے کہ اس استعفیٰ کے کیا اثرات ہوں گے۔ یہ استعفیٰ اور اس سے پہلے مشیر احتساب کے زیرِ نگرانی مقدمات کا اپنی پوری صحت کے ساتھ کسی بھی ملزم کو مجرم ثابت نہ کر سکنا دراصل اس حکومت کی ناکامی کی دلیل ہے۔ تقریباً چار سال گزر چکے ہیں ، میاں نواز شریف ملک سے باہر ،شہباز شریف اورمریم نواز ملک میں موجود ہیں اور کسی بھی قسم کاکوئی آنکڑا کسی بھی مسلم لیگ (ن) سے وابستہ سیاست دان کے گلے میںفٹ نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ اس نظام کے گلے سڑے ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ عمران خان صاحب کی ٹیم مصروف نظر آنے پر زیادہ زور دیتی ہے۔ بار بار میٹنگز کا شوق، ان لوگوں کو بھی کام کرنے سے روکے رکھتا ہے جو دراصل کام کر سکتے ہیں۔ پھریہ لوگ بزعم خویش ہر بات کے پہلے سے ہی ماہر ہیں، یہ کسی کی بات نہیں سنتے ، یہ سسٹم اور نظام کے بارے میں کسی قسم کی تحقیق نہیں کرتے رہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے بھی نہیں کی اور اقتدار میں آنے کے بعد تو یہ انتہائی ناممکن ہوتا چلا گیا کیونکہ اُنہیں یہ محسوس ہونے لگاگویایہ واقعی سب کچھ جانتے ہیں ۔ یہ غلط فہمی پیداکرنے میں بیوروکریسی یوں ہی ماہر ہے ایسے میں جب اُنہوں نے آتے ہی سب سے پہلے بیوروکریسی سے دشمنی پیدا کر لی اور خود نظام سے کسی طور کی واقفیت پیدا نہ کی تو صرف چاپلوس اور وقت گزاری کے ماہرین ہی ان کی ٹیم میں شامل ہو سکے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے ۔ شہزاد اکبر صاحب کی کارکردگی میں اس امر نے بھرپور معاونت کی ہو گی کیونکہ اگر ایسانہ ہوتو وہ سب ناممکن ہے جو جناب عمران خان صاحب کی ناراضگی کا سبب بنا۔ عمران خان صاحب کی اس ملک اور اس قوم سے محبت دیدنی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے اس وقت دو ہی نام مثبت کارکردگی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ایک جناب عمران خان ہیں اور دوسری پاکستانی کرکٹ ٹیم ہے۔ باقی سب کا اللہ ہی حافظ ہے۔ شہزاد اکبر صاحب چار سالوں میں کوئی نتائج نہ دے سکے اور اسکے باوجود چار سال تک اپنا وقت نبھا گئے ، اس سے زیادہ شخصی کامیابی شاید اس دورِ حکومت میںکسی کو حاصل نہیںہوئی۔ کیونکہ اس بات کا تو تواتر سے ذکر ہوتا رہا کہ احتساب کے نام پر نامکمل مقدمات کے علاوہ کچھ اور عدالتوںتک فیس لیکن وزیر اعظم صاحب کو احتساب والوںپر یقین رہا۔ یہ ویسا ہی یقین ہے جو انہیں وزیراعلیٰ پنجاب پر ہے اور جس یقین کو تقویت دینے کے لیے ایک سروے رپورٹ بھی شائع کی گئی جس کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی تمام دیگر وزرائے اعلیٰ سے بہتر تھی۔ سوال تب بھی یہی ذہن میں رہا کہ صفر بڑا لکھیں یا چھوٹا ، صفر صفر ہی ہوتا ہے اور صفر کو کتنی بار بھی صفر سے ضرب دیں جواب صفر ہی آتا ہے۔ مشیر اعلیٰ پنجاب سے لے کر مشیر احتساب تک ایک ہی کہانی ہے۔ اس کہانی کا آغاز بھی ایک ہی اور انجامبھی ایک ، بس افسوس اس بات کا ہے کہ جن کانقصان ہو رہا ہے ، ان کا سارے فسانے میں کہیں ذکر ہی نہیں۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار