معاشی ابتری بڑھ رہی ہے حضور !

لیجئے اب گزشتہ روز حکمران اتحاد کے سربراہوں کے مشاورتی اجلاس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں سابق وزیراعظم عمران خان کا فوری انتخابات کرانے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ آئین و قانون کے خلاف نہیں جائیں گے نہ کسی دھونس کا شکار ہوں گے ، گزشتہ روز ہی حکمران اتحاد کے بعض رہنمائوں نے کھل کر اس موقف کا بھی اظہار کیا کہ ملک میں دھونس اور گالی کے نئے کلچر سے ہر شخص خوفزد ہے ان حالات میں گالی دیئے بغیر ڈٹ کر اپنا موقف عوام اور دیگر کے سامنے رکھنا ہوگا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے ترجمان اور سابق وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کا کہنا ہے کہ حکمران اتحاد کے پانچ ارکان تحریک انصاف سے رابطے میں ہیں۔ انتخابات کی تاریخ دیئے جانے تک کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ انہوں نے پنجاب میں 22جولائی کو حکومت بنانے کے بعد کے بعض اقدامات کا پیشگی عندیہ بھی دیا۔ سیاسی محاذ آرائی سے بنے ماحول میں معاشی خطرات ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ جہاں تک فواد چودھری کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ حکمران اتحاد کے 5ارکان قومی اسمبلی پی ٹی آئی سے رابطے میں ہیں اس کی حقیقت تو وہی جانتے ہوں گے لیکن گزشتہ روز انہوں نے ایک ہی سانس میں دو باتیں کیں اولا یہ کہ وفاق میں 5 ایم این اے ہمارے رابطے میںہیں اور 22 جولائی کو وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے مرحلہ میں بھی متعدد حکومتی ارکان ہمارے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ ثانیا یہ دعوی بھی کیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری پنجاب میں ہمارے ارکان کو خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خریدوفروخت یا کسی بھی طرح حمایت حاصل کرنے تک ہر دو کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ سیاسی جماعتوں کو پارلیمانی قواعد کی حدود میں رہ کر ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔
اس جانب توجہ دلانا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ملک میں موجود سیاسی بے یقینی کی وجہ سے پورا نظام مفلوج دکھائی دیتا ہے۔ حکمران اتحاد کو اس گھمبیر صورتحال پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ گزشتہ روز بھی سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس پوائنٹ میں 978پوائنٹس کمی ہوئی۔ 84فیصد شیئرز کی قیمتوں میں کمی سے سرمایہ کاروں کے مزید 137ارب روپے ڈوب گئے۔ پچھلے دو دن کے دوران سرمایہ کاروں کے مجموعی طور پر 235ارب روپے ڈوب گئے۔ سٹاک مارکیٹ مفلوج ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک ایک ہزار روپے والے شیئرز کی قیمت 168روپے سے 200روپے کے درمیان آگئی ہے یہ صورتحال تشویشناک نہیں بلکہ خطرناک ہے۔ کاروبار زندگی کے دوسرے شعبوں کی حالت بھی بہت پتلی ہے روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے ادویات اور دیگر اشیا کی تیاری کیلئے بیرون ملک سے منگوائے جانے والے خام مال کی قیمت بڑھ جانے سے پیداواری عمل متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ ایسا ہوا تو ایک نیا بحران جنم لے گا۔ مندرجہ بالا دو مثالیں عرض کرنے کا مقصد ان زمینی حقائق کی طرف توجہ دلانا ہے جنہیں مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار میں سیاسی عمل اور احتساب و انصاف کو الگ الگ رکھا ہوتا اور بعض معاملات پر پارلیمان میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر بات کی ہوتی خصوصا انتخابی اصلاحات، نیب کے معاملات و دیگر امور پر تو سیاسی نظام اس بند گلی تک نہ پہنچتا جہاں آج کھڑا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ گزشتہ دور میں جن امور پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کام چلایا جاتا رہا ان پر اب ہونے والی قانون سازی پر اعتراض کیا جارہا ہے۔ جن معاملات خصوصا قانون سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ میں کام ہونا چاہیے ان پر عدالتوں سے رجوع کیا جارہا ہے۔ حالانکہ دستوری امور اور قانون سازی پر عدالتوں کا رخ کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں معاملات نمٹائے جانے چاہئیں۔ سیاستدان اپنی عدم برداشت کی وجہ سے باہمی مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے پہلے قانونی و دستوری معاملات لے کر عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں بعدازاں اس دکھ کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کرتا سب کو پارلیمان اور حکومت کے فرائض ادا کرنے کا شوق ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر ماضی کی طرح یہ باتیں سننے میں آرہی ہیں غور طلب امر یہ ہے کہ سیاستدان سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے بچوں کا سا رویہ کیوں اپناتے ہیں۔برسوں بلکہ عشروں سے سیاسی میدان میں سرگرم عمل قائدین کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ ان کی باہمی لڑائیوں اور عدم برداشت پر مبنی رویوں کی بدولت دوسروں کو سیاسی عمل اور امور مملکت میں مداخلت کا موقع ملتا ہے ؟ بہرطور جو ہوگیا سو ہوگیا سیاسی قائدین کو چاہیے کہ وہ ملک اور قوم کی خاطر شخصی پسندوناپسند کو ایک طرف رکھ کر دو قدم آگے بڑھیں اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں تاکہ کوئی انہونی رونما نہ ہونے پائے۔ ہم مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے معاشی خطرات بڑھ رہے ہیں۔ معاشی حوالے سے مقامی ماہرین لاکھ دعوے کرکے قوم کو بہلانے کی کوشش کریں، معاشیات پر نگاہ رکھنے والے عالمی ادارے خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ آنکھیں بند کرلینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔ گزشتہ روز بھی عالمی ادارے فچ نے پاکستان کی ریٹنگ منفی کردی ہے۔ فچ تیسرا ادارہ ہے جس نے ریٹنگ منفی کی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی ماہرین کے خیال میں اگر معاشی معاملات کو سنجیدگی سے سنبھالنے کی کوشش نہ ہوئی تو دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ خدا کرے ان کے اندازے غلط ہوں لیکن یہ ضروری ہے کہ اندازے غلط ثابت کرنے کے لئے انقلابی خطوط پر کام کرنا ہوگا۔ امید واثق ہے کہ گھمبیر صورتحال کا ادراک ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ حل تلاش کرنے پر بھی توجہ دی جائے گی۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات