معاملات طے کرنے کی مہلت

وطن عزیز کی سیاست میں سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لیجانے کے نئے سلسلے کے تحت جو معاملات اور کام اسمبلیوں میں کرنے کے ہیں وہ اب عدالتوں میں لے جا کر وہاں سے کوئی راستہ نکالنے کا کام شروع ہوا ہے جس سے ملک میں بار بار آئینی بحران پیدا ہو رہے ہیں عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم معطل کر دیا ہے لیکن دوسری جانب اسمبلی کی تحلیل کے وزیر اعلیٰ کے صوابدید اور تحریک انصاف کو مطلوب اقدام پر وقتی قدغن بھی لگا دی ہے بہرحال بالآخر وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینا ہی پڑے گا اس سارے قضیے میں سوال کن کن کے مقاصد پورے ہونے، کن کن کی چالوں کی کامیابی اور کن کی خواہشات یا اعلانات پر اوس پڑنے کا بھی پوچھا جا رہا ہے، جملہ فریقوں کی جانب سے اس صورتحال میں بھی ہر فریق کی جانب سے اپنے مؤقف کی کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ مطلوب کیا تھا اور عدالتی ہدایات سے آئندہ کی سیاست اور اسمبلی کے اندر تبدیلی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حد تک اس حوالے سے صورتحال واضح نہیں لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بہرحال ووٹنگ ہونی ہے جس سے منظر نامہ خود بخود واضح ہو گا۔ پنجاب اسمبلی میں کن جماعتوں یا اتحاد کو اکثریت حاصل ہے فی الوقت عبوری ریلیف ملی ہے اور اسمبلی کی تحلیل مؤخر ہوئی ہے گورنر کا ایک حکم ڈی نوٹیفائی ضرور ہوا ہے لیکن غالباً اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم برقرار ہے صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کیخلاف تحرک عدم اعتماد و حزب اختلاف نے واپس لے لی ہے اعتماد کا ووٹ لینا وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے بڑا امتحان اس لئے بھی ہے کہ اس ہنگامے میں ان کی اور تحریک انصاف کے درمیان نشستوں کے لین دین میں اور ایک اعلیٰ شخصیت کے حوالے سے عمران خان کے بیانات سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ دوریوں کا باعث ضرور بنی ہے۔ یہ دلچسپ امر بھی خارج از امکان نہیں کہ وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لینے کی نوبت ہی نہ آنے دی جائے اور سپیکر ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے۔ وطن عزیز کے سب سے بڑے صوبے میں حکومتی سطح پر جو بحران پیدا ہوا تھا اس عدالتی فیصلے سے وقتی طور پر تو چیزیں اور معاملات اپنی جگہ پر واپس ضرور آگئی ہیں لیکن گیند اب بھی سیاست دانوں کے کورٹ سے باہر نہیں آئی، سیاسی رہنمائوں کو نصف ماہ کا وقت مل گیا ہے کہ وہ اس دوران معاملات کا کوئی سیاسی حل نکالیں یہ مدت سیاست دانوں اور حزب اختلاف کے اکابرین کیلئے امتحان سے کم نہیں کہ وہ مسائل کا سیاسی حل نکالتے ہیں یا پھر چپقلش جاری رہتی ہے سیاست کی پنجہ آزمائی سے قطع نظر ملکی حالات اور عوامی سوچ کا جائزہ لیا جائے تو ہر دو ملکی معاملات میں سنجیدگی اور مفاہمت کی متقاضی ہیں معاشی و اقتصادی حالات کسی سے پوشیدہ نہیں تازہ حالات میں سکیورٹی کے خطرات کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے ایسے میں ملکی معاملات کی اصلاح میں سیاسی اکابرین سے بجا طور پر توقع ہے وہ ان حالات کا ادراک کریںگے اور ملک کو سیاسی انتشار اور غیر یقینی کے سلسلے سے نکالنے کیلئے اپنے رویوں کو لچک اور اعتدال میں بدل دیںگے ملک و قوم کے مفاد اور حالات کا عین تقاضا یہ ہے کہ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ضد و انا بازی کی بجائے ملکی حالات پر توجہ مرکوز پاکستان تحریک انصاف اور حکومت اتحاد دونوں کو اپنی سوچ اور سیاست میں تبدیلی لانی چاہئے مکالمہ اور مذاکرات و معاملت پر توجہ دی جائے، جاری حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ اپنی توانائیاں انتشار کی بجائے قومی اصلاح کی مساعی پر صرف کی جائیں اور کوئی ایسا مفاہمتی عمل اختیار کیا جائے جو سنجیدگی کے ساتھ ان حالات سے نکلنے کا راستہ ثابت ہو۔ اب بات اور اختلاف صرف اور صرف چند ماہ قبل عام انتخابات کرانے تک رہ گئی ہے جو اتنا بڑا تنازعہ نہیں کہ اس پر بیٹھ کر بات چیت کر کے کوئی درمیانی راستہ نہ نکالا جا سکے عام انتخابات کیلئے اب زیادہ عرصہ باقی نہیں رہا یہ وقت حکومتیں بنانے اور گرانے کا نہیں بلکہ انتخابات کی تیاریوں کا ہے جس کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں قریب آئیں اور مفاہمانہ ماحول میں انتخابی تیاریاں کی جائیں الیکشن کمیشن کے معاملات اور انتخابی اصلاحات پر اب بات ہونی چاہئے اور اس حوالے سے اختلافات و تنازعات طے کرنے کی سعی ہونی چاہئے تاکہ ایک اچھا انتخابی ماحول بن سکے جس میں صاف اور شفاف و غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد ہوں جس کے نتائج مشکوک نہ ہوں تاکہ جو وقت گزر گیا سو گزر گیا کم از کم عام انتخابات کے نتیجے میں آنے والی آئندہ حکومت تو اعتماد کی فضا میں بنے اور اس طرح کے تنازعات کا پھر سامنا نہ ہو۔ سیاست دانوں کے جاری طرز عمل سے ہر دو فریقوں کے حامی نالاں ہیں اور وہ بار بار کے تنازعات سے اکتا چکے ہیں جو توانائیاں عوامی مفاد اور مسائل کیلئے صرف کرنی چاہئے وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگ رہی ہیں آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، کوئی ایک فریق تو اس میں لچک کا مظاہرہ کرکے ملک کو اس دلدل سے نکالے جو بھی بھی فریق اس میں احسن کردار میں پہل کرے عوام کی ہمدردیاں اسے حاصل ہونا فطری امر ہوگا ہر طرف کی مایوسی کی فضا میں کہیں سے کوئی آواز تو امید کی آئے عوام شدت سے اس آواز کے منتظر ہیں ۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام