مفاد پرستی مذاکرات نہیں ہونے دے رہی

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی جانب سے تحریک انصاف اور حکومت کو ساتھ بٹھا کر معاملات حل کرنے کی کوشش ہر لحاظ سے قابل تحسین قرار دی جاسکتی ہے تاہم آگ اور پانی کے ملاپ کی جتنی بھی کوششیں کی جائیں شاید اس لیے یہ کامیاب نہ ہوں کہ جہاں تحریک انصاف اپنے سالوں پر مشتمل دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف سخت ترین موقف سے ایک لمحے کے لیے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آئی وہیں اب حکومت بھی تحریک انصاف سے بات نہ کرنے اور اپنی رٹ منوانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیاری پکڑ چکی ہے اس کے آثار ہم حکومت اور عدلیہ کے درمیان بڑھتی ہوئی اس کشیدگی سے لگا سکتے ہیں جس کے ڈانڈے بہرحال حکومت کی تحریک انصاف سے نمٹنے کی پالیسی سے جاملتے ہیں۔دوسری جانب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت میں شامل کسی ایک جماعت کا مذاکرات پر راضی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک حکومت میں شامل تما م جماعتیں تحریک انصاف سے مذاکرات کی حمایت نہ کریں۔فی الحا ل تو صرف حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہی اپوزیشن سے بات کرنے کا حکومت کو مشورہ دے رہی ہے تاہم اس کی ایک اور اہم اتحادی جماعت جے یوآئی کسی بھی صورت تحریک انصاف سے بات کرنے کو تیا رنہیں ہیں۔حکمران اتحاد سے وابستہ ایک اہم اتحادی جو اپنی جماعت ہی نہیں حکمران اتحاد میں شامل پی ڈی ایم کے بھی سربراہ ہیںکی سخت بیان بازی کے بعد دیکھا جائے توسیاسی مذاکرات کے خواہشمند حلقوں کے لیے مایوس کن صورت حال ہی ہے ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی سے پہلے اسی قسم کے ڈائیلاگ کے لیے عدالت عظمیٰ بھی سیاسی جماعتوں پر زور دیا تھا تاکہ وہ الیکشن اور اس سے جڑے معاملات پر کوئی سمجھوتا کر کے آگے بڑھ سکیں اورملک میں جاری سیاسی عدم استحکا م کا خاتمہ ہو تاہم عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس تادیب پر بھی سیاسی جماعتوں نے کان نہیں دھرے اور یوں سیاسی معاملات کو عدالتوںکے سپرد کرکے انہیں بھی اس کشیدگی کا حصہ بنا دیا گیا اور بات یہاں پہنچی کہ عدلیہ بھی اس سیاسی مہم جوئی کی وجہ سے تقسیم در تقسیم کا شکار ہو گئی ہے ۔اس لیے ایک طر ف اس کے فیصلوں کی مزاحمت کا اعلان کیا جارہا ہے تو دوسری طرف ان فیصلوں کا توڑ کرنے کے لیے حکمران جماعتوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ سے متعلق تیز تر قانون سازی کرکے مذاکرات کی بجائے مزاحمت اور دفاع کی بجائے جارحانہ انداز اپنا لیا ہے جس کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کی بجائے اب اس کا مخالف کیمپ دبائو کا شکار ہے ۔اس لیے فریق مخالف کی مذاکر ات پر آمادگی کو حکومت اپنی جارحانہ حکمت عملی کی کامیابی سمجھ کر مزید جارحانہ اقدامات کر سکتی ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان سے ملاقات سے قبل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے وزیراعظم سے جو ملاقات کی تھی اس میں کسی بھی قسم کے تعاون کی یقین دہانی حکمران اتحاد یا حکومت کی بجائے ن لیگ کا موقف ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔اس لیے فوری طور پر سیاسی عدم استحکام کی بجائے اس میں اضافے کے خدشات ہی قوی نظر آرہے ہیں۔ اس کا ایک ثبو ت تحریک انصاف کے رہنمائوں،کارکنوں اور سوشل میڈیا پر سرگرم رضاکاروں کی گرفتاریاں بھی ہیں ۔ان تمام تر حالات اور بدگمانیوں کے باجود ملکی مسائل کا حل مذاکرات ہی ہیں ۔یہ بدقسمتی ہی ہے کہ جہاں دنیا بھر کے متحارب ملک اور قوتیں مذاکرات کی میز پر تیزی سے استحکام کی طرف آرہی ہیں وہیں ہم اندرون خانہ سیاسی چپقلش کو اسی ہی رفتار سے انتشار اور خانہ جنگی کی طرف لے جارہے ہیں ۔یمن میں متحارب گروپوں کے درمیان ہونے والی تیز تر مثبت پیش رفت ہو یا شام کی خانہ جنگی کو ختم کرنے کی کوششیںیاایران اور سعودی عرب کے سالوں پر محیط تنازعات سب کو لپیٹ کر مخالف فریق شیر وشکر ہونے اور خطے کی ترقی کے راستے ڈھونڈنے لگے ہیں تاہم ایک ہم ہیں کہ تمام تر معاشی بدحالی کے باوجود ایک دوسرے کا وجود برداشت نہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں یہ بھلا دیا گیا ہے کہ مخالف فریق کے ماورائے آئین خاتمے یا سیاست سے آئوٹ کرنے کی خواہش کی جس طرح ہمارے ہاں پرورش کی گئی ہے اور جیسے ہم سترسال سے اس کو بار بار آزما رہے ہیں اس کے ہوتے ہوئے کسی بھی طرح کے مذاکرات کامیاب ہوں گے نہ ہی سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوگا ۔اس لیے ضروری امر ہے کہ سیاسی جماعتیں آئین کی حدود میں رہ کر بات کریں ،بجائے ریاستی اداروں کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش کے آئین وقانون کو مشعل راہ بنائیں توکوئی وجہ نہیں کہ مل بیٹھ کر سیاسی عدم استحکام ہی نہیں معاشی بدحالی پر بھی قابو پایا جاسکتاہے ۔ سیاسی جماعتوں کو اب میں نہ مانوں کا رویہ چھوڑ کر ملکی مفاد میں بات چیت کی کوشش کو کامیاب بنانا چاہیئے ،بصورت دیگر جو حالات عالمی سطح پر بن اور بگڑ رہے ہیں یہ ضدی قوموں کے لیے صاف پیغام ہے۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی