p613 350

ملالہ کا متنازعہ بیان

برطانوی فیشن میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے نوبل انعام یافتہ خاتون ملالہ یوسفزئی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ہمارے دین اور پشتون معاشرہ دونوں ہی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، کوئی کتنا بھی آزاد خیال کیوں نہ ہو اس طرح کے خیالات کا برملا اظہار نہیں کر سکتا جس کا اظہار سوات جیسے قدامت پسند علاقے سے تعلق رکھنے والی ملالہ نے کیا ہے ۔ ملالہ کو شدت پسندوں اور خود پر حملہ کرنے والوں کی مذمت اور ان کے حوالے سے سخت کلمات کی ادائیگی کا تو حق حاصل ہے لیکن ان کا غصہ اسلامی شعائر اور ثقافتی اقدار پر تنقید کرکے نکالنے کا ان کو حق حاصل نہیں۔آزاد پسندی اور آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے خیالات کا اظہار کیا جائے جن کی گنجائش نہ ہو۔ ملالہ یوسفزئی کی جانب سے ان خیالات کے ا ظہار کی تردید اور وضاحت کا ایک موقع ہے عین ممکن ہے کہ ان کے خیالات اور الفاظ کے غلط معنی پہنائے گئے ہوں کیونکہ ملالہ یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور وہاں مقیم ہونے کے باوجود دوپٹہ لیتی ہیں اور مناسب لباس کا بھی خیال رکھتی ہیں ان کے لباس پر یورپ کا رنگ نہیں چڑھا تو ان کے خیالات کی اس طرح کی آزادی جس کی گنجائش نہ ہو قابل غور امر ہے۔ دریں اثناء ملالہ یوسفزئی کے انٹرویو کے حوالے سے سوشل میڈیا پرایک اور وضاحت نما اظہار خیال کا حوالہ دیا جارہا ہے جس میں انٹرویو میں ان سے منسوب محولہ بالا خیالات کی بہ نسبت دیگر قسم کے خیالات کے اظہار کی بات کی گئی ہے جو معقولیت کے درجے پرہیں اس نئے زوایے کے مطابق ملالہ نے اپنے انٹرویو میں کہا مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کسی کے ساتھ رہنے کے لئے میرج کنٹریکٹ پردستخط کرناکیوں ضروری ہے انسان کسی کے ساتھ ویسے بھی رہ سکتا ہے لیکن اگر یہ بات میں اپنی ماں سے کروں تو وہ سخت ناراض ہو گی کیونکہ ہم روایت پسند خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور میری ماں میری شادی کرانے کے لئے تیار بیٹھی ہے، آج سے چند سال قبل میں کہتی تھی کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سوچنے میں تبدیلی آتی رہتی ہے میں نے جو سکارف پہنا ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں کس خطے کی ہوں، ہم پشتون انتہائی مہذب اور اقدار کے مالک لوگ ہیں اس طرح کے خیالات کے برملا اظہار کی ان سے توقع نہیں کی جا سکی کہ کسی کو اپنی زندگی میں رکھنے کیلئے شادی کے کاغذات پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے ، مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے کہ لوگوں کو شادی کیوں کرنی ہے، اگر آپ اپنی زندگی میں کسی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نکاح نامے پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے، صرف پارٹنر بن کر کیوں نہیں رہ سکتے؟ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسف زئی کی جانب سے ایک وضاحتی بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ شادی سے متعلق ملالہ کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی گی ہے،یہ وضاحتی بیان انہوں نے سوشل میڈیا پر مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے استفسار کے بعد جاری کیا ہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ وضاحتی بیان کافی نہیں ہے، ان کی طر ف سے دو ٹوک انداز میں مؤقف سامنے آنا چاہئے، ورنہ پہلے سے ان کی مخالفت پرتلے افراد کو سنہری موقع ہاتھ آئے گا اور وہ ان کی کردار کشی سے دریغ نہیں کریں گے۔
بروقت اقدامات کی ضرورت
چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کی جانب سے عوامی مقامات سے گندگی کے ڈھیر ہٹانے اور غیر ضروری وغیر قانونی سپیڈ بریکر سے سڑکوں کو صاف کرنے کی ہدایت پر جس سرعت سے عمل ہو گا اتنا ہی عوام اور حکومت دونوں کے حق میں بہتر ہو گا۔ چیف سیکرٹری نے ڈینگی سے بچائو کے لئے سپرے کرنے کی بھی بروقت ہدایت کی ہے مچھروں کی بہتات کے باعث متعلقہ محکموں کو بروقت اس کا انتظام کر لینا چاہئے تھا بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی اگر وقت ضائع کئے بغیر مچھر مار سپرے اور ڈینگی سے بچائو کے لئے عملی اقدامات کئے جائیںتو لوگوں کو ڈینگی کے خطرات سے بچایا جاسکتا ہے ۔ ڈینگی سے بچائو کے عمل میں عوام کا تعاون بھی ناگزیر ہے، حکومت خیبرپختونخوا اس حوالے سے باقاعدہ تشہیری مہم کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کر رہی ہے۔ شہریوں کو خود کواپنے مفاد میں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ان حفاظتی اقدامات کو اختیار کرنے میں تساہل کا مظاہرہ نہ کریں اور حتی المقدور کوشش کریں کہ جتنا ہو سکے خاص طور پر بچوں، ضغیف اور بیمار افراد کا خصوصی خیال رکھیں ۔
غیر قانونی تجارتی سرگرمیاں بند کی جائیں
صوبائی دارالحکومت پشاور شہر میں انتظامیہ کے عدم توجہ کے باعث غیر قانونی کمرشل سرگرمیاں عوام کے لئے وبال جان بن گئی ہیں ہمارے نمائندے کے مطابق شہر کے گنجان رہائشی علاقے ہی نہیں حیات آباد، یونیورسٹی روڈ اور دیگر رہائشی آبادی میں بھی غیر قانونی کمرشل سرگرمیوں کی بہتات ہے۔ کمرشل سرگرمیوں کے باعث جہاں عوام کو آمدورفت اور شور وغل جیسی مشکل کا سامنا ہے وہاں ان سرگرمیوں کے باعث مختلف دیگر قسم کی معاشرتی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ شہر کے بعض علاقوں میں کباڑ کا کاروبار کرنے والے تاجروں نے گھر کرایہ پر لے کر گھروں میں کارخانے کھول رکھے ہیں، شہر کے بعض رہائشی علاقوں میں قائم فیکٹریوں اور گوداموں سے شہری نالاں آ چکے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کے خلاف شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔امر واقع یہ ہے کہ شہری مسائل کے لاینحل ہونے کی ایک بڑی وجہ متعلقہ حکام کی جانب سے ان پر بروقت عدم توجہہ اور تساہل کا معاملہ ہے متعلقہ حکام اگر مسائل کے حل کی طرف مسلسل توجہ دینے کی روش اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عوامی مسائل میں کمی نہ آئے ۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی