Untitled 1 415

ملی بھگت کا خاتمہ اور مسابقت کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت

وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کی بروقت اشیائے خوردنی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے گندم، چینی اور سبزیوں کو کھیتوں سے صارفین تک پہنچانے کے نظام کو مربوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہماے ملک میںمہنگائی میں اضافے کی دیگر وجوہات کیساتھ ساتھ ایسی وجوہات کا بھی بڑا عمل دخل ہے جس کے باعث صارفین متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں ایک بڑا عنصر سپلائی کا ناقص اور ناقابل اعتماد نظام ہے۔ خوراک کی مہنگائی اور بحران کے عوامل کا جائزہ لیا جائے تو بحران کی بنیادی وجوہات میں اندازے کی غلطی اور طلب ورسد کا غیر حقیقی نظام ہے۔ ماہرین بار بار اس جانب توجہ دلاتے ہیں بنیادی عوامل کی نشاندہی بھی ہوتی ہے لیکن پراسرار طور پر معاملات کی درستگی کے اقدامات ہوتے نہیں، یہی وجہ ہے کہ مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں اور اصلاح احوال ہو نہیں پاتی۔ حکومت ان مسائل سے سنجیدگی سے نمٹ لے تو ملک میں خوراک کی قیمتوں میں من مانے اضافے اور خودساختہ بلکہ منصوبہ بند بحران کا بڑے حد تک تدارک ممکن ہوسکتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سلسلے میں سامنے آنے والے حقائق سے بہت کچھ سیکھنے اور اقدامات کرنے کی پوری گنجائش ہے چینی کے بحران کی وجوہات کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 2018اور 2019 میں چینی کی بلاسوچے سمجھے برآمد کے باعث آج تک مارکیٹ میں استحکام نہیں آیا۔ چینی سکینڈل میں ملوث شوگر مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ حکومتیں ان سے نمٹنے کی جرأت نہیں کرپاتیں چینی کی تجارت کرنے والوں اور ملز مالکان کی بڑی تعداد ایسے حکمران خاندانوں اور افراد کی ہے کہ ان کا کوئی نہ کوئی نمائندہ ایسی جگہ ضرور موجود ہوتا ہے جہاں مفادات کے ٹکراؤ کے اصول کے مطابق ان کو نہیں ہونا چاہئے۔ یہ مافیا ہر دور میں ایک دوسرے کے تحفظ اور مفادات کی نگرانی وتحفظ کیلئے پوری طرح سرگرمی دکھاتا ہے۔ جب تک اس کا توڑ تلاش نہیں ہوگا ملک میں چینی کے بحران پر قابو پانے کی توقع عبث ہے۔ اسی طرح گندم کی قومی پیداوار کے بڑے حصے کی غیرقانونی طور پر سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی ہے جس کے باعث طلب ورسد کا توازن کبھی برابر نہیں ہوتا اور قیمتوں میں اضافہ ہونے کیساتھ ساتھ فصل آنے کے باوجود بھی آٹا کی قیمتوں میں کمی نہیں آتی، اس طرح کے حالات میں حکومت کے پاس سوائے گندم کی درآمد کے اور کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہتا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک جانب حکومت گندم درآمد کرتی ہے اور دوسری جانب گندم اور آٹا افغانستان کو سمگل ہورہی ہوتی ہے جسے اگر روکا جائے اور حکومت گندم کا ذخیرہ کرنے والے افراد کو لگام دے تو گندم درآمد کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ سبزیوں کی قیمتوں کی غیر یکسانیت کی بنیادی وجہ کھیت سے منڈی تک رسد کا ناقص نظام ہے ۔ یہ درست ہے کہ حکومت کی جانب سے سبزیوں کے نرخ ضرور مقرر کرنے کا تکلف کیا جاتا ہے مگر اس پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ عمومی طور پر اس پر عملدرآمد نہ ہونے سے گاہک کا ہی استحصال ہوتا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ نے درست تجویز دی ہے کہ کھیت سے منڈی تک سپلائی کا نظام واضح ہونا چاہئے اس پر عملدرآمد کیلئے حکومتی سطح پر جب تک سخت جتن نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ منڈیوں میں اجارہ داری کے نظام کے باعث خوراک کی قیمتوں کا تعین بھی سرمایہ داروں ہی کے ہاتھ چلا جاتا ہے۔ منڈی میں سٹہ بازی اور بحران پیدا کرکے حکومت کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ منظم عمل بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس کا توڑ منڈی میں مسابقت کا نظام رائج کرکے ہی نکالا جاسکتا ہے جب تک مارکیٹ میں مسابقت کی فضا نہیںہوگی اس وقت تک منافع خوری اور استحصال کا بھی خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے