ممکنہ حل کیلئے حالات سازگار بنانے کی ضرورت

وفاقی حکومت کی جانب ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور شرح مبادلہ میں استحکام کیلئے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے ملک میں24ارب ڈالر لانے کی پیشکش کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ شرح مبادلہ میں استحکام اور ملکی زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایسوسی ایشن کی تجاویز کا جائزہ لے کر وہ اپنی سفارشات وزیراعظم کو بھجوائیں گے ذرائع کے مطابق اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ تجاویز کا جائزہ لے رہی ہے، قابل عمل تجاویز پر عمل کیا جائے گا۔واضح رہے کہ حکومت کو ماہانہ ایک ارب ڈالر اور دو سال تک24 ارب ڈالر فنڈز فراہمی کی پیشکش کی ہے ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کی جانب سے10سے 15ہزار ڈالرز کی خریدو فروخت پر شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے سمیت فاریکس ٹریڈ مارکیٹ کیلئے شرائط نرم کرنے کا مطالبہ کیا، اگر ایسوسی ایشن کی تجاویز پر عمل کیا جائے توآئی ایم ایف سے نجات یقینی ہے ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسی تجاویز نہیں دیں جو قابل عمل نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سے پہلے1998میں ایسا کر کے دکھا چکے ہیں، اس وقت تو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر40کروڑ ڈالر کی کم ترین اور خطرناک ترین سطح پر آچکے تھے، ایٹمی دھماکوں کے باعث پاکستان پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد تھیں، ہم زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھا کر دس ارب ڈالر تک لے کر گئے تھے، ہمارے ماڈل اور تجاویز کو ترکی نے نافذ کرکے ڈالر کے مسئلے پر قابو پایا تو ہم کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔اگرہم صورتحال کاتھوڑا پیچھے جا کر جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ 2018ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران ایک ڈالر ایک سو دس سے ایک سو پندرہ روپے کے درمیان تھا اور افراط زر کی شرح پانچ فیصد تھی سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب 23 کروڑ ڈالرتھے آج پانچ سال بعد صورتحال اسی نہج پر آچکی ہے جب ایٹمی دھماکوں کی پاداش میں پاکستان پرعالمی دبائو ڈال کراس کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اس وقت یعنی 1998ء کو زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر آگئے جس کا جوحل نکالا گیا آج ایک مرتبہ پھر اس کامیاب ماڈل کے احیاء کی تجویز احسن ہے اس صورت میں ہم آئی ایم ایف کی شرائط اور خاص طور پر ان کی میزائل رینج کم کرنے جیسی”فرمائشوں” سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں جب متبادل پلان سامنے آئے اور معاشی مشکلات سے نکلنے زرمبادلہ کی تنگی اور ادائیگی کی مجبوری کی رسی ذرا ڈھیلی ہونے لگے توآئی ایم ایف کی نامناسب شرائط میں بھی اس لئے کمی آنا فطری امر ہو گا کہ آخر آئی ایم ایف بھی ایک مالیاتی ادارہ ہے جسے قرض کی صورت میں سرمایہ کاری اوربھاری سود کی وصولی کرنے کے مواقع کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت افراط زر کے حوالے سے ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ پریشان کن ہے کہ گزشتہ ماہ ا فراط زر کی شرح 35.37 تک پہنچ چکی تھی اور اس میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے ۔روپے کی قدر کا حال یہ ہے کہ گزشتہ سال بھر میں ڈالر کی قدر میں سو روپے کا اضافہ ہو چکا ہے برآمدات اور سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم بھی زوال پذیر ہیں سیلاب اور دیگر مسائل کے ملک کے معاشی صورتحال پر اثرات سے انکار نہیں لیکن ملک میں مجموعی طور پر جس قسم کی سیاسی صورتحال ہے یہ ام المسائل بنی ہوئی ہے صورتحال کو سنبھالا نہ دیا گیا تو افراط زر میں مزید اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر مزید گھٹ سکتے ہیں اس جان بلب معیشت کا تریاق ملک میں سیاسی انتشار کی کیفیت کا خاتمہ ہے ۔وزیر اعظم بطور قائد حزب اختلاف جس میثاق معیشت کی پیشکش کرتے رہے ہیں اب اس پر پیش رفت ہی صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ ہے وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح معاشی اور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اب وہ اس حد کو پہنچ چکا ہے جہاں سے آگے کی مزید گنجائش نہیں حکومت کو قرضہ دینے اور ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کی جو بھی تجویز اور پیشکش ہو گی اس کے لئے سیاسی استحکام کی ضرورت کو سب سے پہلے مد نظر رکھا جائے گا اس کے بغیر کسی بھی جانب سے سرمایہ کاری اور اعانت کو پر خطر ہی جان کر اس سے احتراز فطری امر ہوگا جس ماڈل اور تجاویز پر عمل کرکے ترکی کے مسائل پر قابو پانے کی بات ہو رہی ہے اس میں اس بات پر ضرور توجہ کی ضرورت ہے کہ ترکی میں حکومتی ریاستی سیاسی اور عوامی استحکام کی صورتحال مثالی رہی اور اگر کہیں کچھ مسائل اٹھ کھڑے بھی ہوئے تو اس پرقابو پالیا گیا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ملکی معاشی مسائل کا حل ملک کے اندر تلاش کیا جارہا ہے اور اس کی گنجائش و مثالیں دونوں موجود ہیں لیکن جس چیز کی کمی اور ضرورت ہے وہ داخلی و سیاسی استحکام ہے جس کے بغیر نہ تو معیشت سنبھل سکتی ہے نہ اس صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے اور نہ ہی آنے والی حکومت مستحکم بن سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار