1 541

من جداگریہ کناں ‘ ابرجدا ‘ یار جدا

گزشتہ کالم میں بات ادھوری رہ گئی تھی ‘ مسئلہ یہ ہے کہ اخبار میں صرف ہمارا کالم تو نہیں چھپتا ‘ اور بھی کئی کالم ہوتے ہیں ‘ سو جتنی جگہ کالم کے لئے مخصوص ہوتی ہے اس کے حدود ہی میں رہنا مجبوری ہے ‘ یوں کبھی کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور ہمارا کالم جس کی ابتداء انداز بیاں سے چلی تھی اور پرویز خٹک کے اس چیلنج کی تھی جو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو دیا گیا تھا کہ وہ بقول خٹک صاحب ان کے صوبے میں ایک بھی کچا مکان ڈھونڈ کر دکھا دے ‘تو تادم تحریر تو چھوٹے میاں صاحب نے ہمارے صوبے میں کہیں ایک بھی کچے مکان کی نشاندہی کرکے خٹک صاحب کی بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ‘ دراصل جب سے احمد فراز نے لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کچے مکان کے کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں تب سے عوام نے کچے مکانوں کی تعمیر بند کر رکھی ہے یعنی فراز کی بات پلے سے باندھ لی ہے کہ
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا ترا مکان ہے کچھ تو خیال کر
اب لوگ کچے مکانوں میں نہیں رہتے بلکہ جھگیوں اور خیموں میں قیام کرتے ہیں ‘ اگرچہ جب شروع شروع میں افغان مہاجرین نقل مکانی کرکے آئے تھے تو ان کے لئے پہلے خیمہ بستیاں بسائی گئی تھیں اور بعد میں انہی جگہوں پر کچے مکان تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ‘ انہی بستیوں میں ایک بہت مشہور بستی کا نام بھی کچہ گھڑی تھا ‘ مگر خدا جانے کس نے محولہ بالا شعر کی جانب توجہ دلائی تو ان کچی بستیوں کو خالی کرا کے وہاں پر اب ہائوسنگ سکیموں کا سلسلہ دراز کیا جارہا ہے ‘ رہ گئے افغان مہاجرین تو ان میں سے بہت بڑی تعداد اگرچہ واپس جا چکی ہے تاہم اب بھی رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ یہاں موجود ہیں اور ان میں بھی اکثر مقامی لوگوں کے کاروبار پر قابض ہو کر کرائے کے مکانوں میں (یا پاکستان کے شناختی کارڈ کسی نہ کسی طور حاصل کرکے )اپنی جائیدادیں بھی خرید کر ان میں رہتے ہیں ‘ اور بہت کم ہیں جو کہیں نہ کہیں خیموں میں رہائش پذیر ہیں ‘ البتہ جو کچے مکان اب بھی کہیں ہیں تو ان تک خٹک صاحب کی رسائی شاید نہیں ہوئی اور ان کو تو بس یہی یاد ہو گا کہ جو کچی بستیاں حیات آباد کے سامنے(اب ڈی ایچ اے اور ریگی للمہ سکیم میں ڈھل چکی ہے) اضاخیل ‘چراٹ روڈ اور دیگر کئی مقامات پر آباد تھیں چونکہ انہیں مسمار کیا جا چکا ہے اس لئے ان کا چیلنج اپنی جگہ اہمیت تو رکھتا ہے ۔ اس پر یہ کہنا تو بنتا ہے کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا ‘ تاہم وہ جو علامہ اقبال نے کہا ہے اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے کہ
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے ‘ سلطانی بھی عیاری
بات کچے مکانوں سے یوں چلی تھی کہ اس حوالے سے غربت کا جائزہ لینا مقصود تھا اور گزشتہ کالم میں ہم نے صرف ڈبلیو ایس ایس پی کے مختلف جگہوں پر رکھے ان کنٹینروں تک تذکرہ محدود رکھا تھا جہاں غریب لوگ بھوک سے لڑتے ہوئے ان گندگی کے ڈھیروں تک میں اپنے لئے رزق تلاش کرنے پر مجبور ہیں ‘ جبکہ غربت قدم قدم پر کس طرح خط غربت سے نیچے لڑھکنے والوں کو تگنی کا ناچ نچا رہی ہے ‘ ان میں ایک اہم طبقہ وہ دیہاڑی دار مزدور بھی ہیں جو ہر صبح اپنے اپنے اوزار اٹھائے شہروں کے مخصوص مقامات پر آکر ڈیرے جما لیتے ہیں ‘ ان میں راج ‘ قلعی گر ‘ ترکھان اور ٹاٹکی اٹھانے والے عام مزدور بھی ہوتے ہیں ‘ کہ شاید دیہاڑی لگ جائے اور شام کے وقت گھر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے لئے کچھ لیکر جائیں اور ان کی بھوک مٹ سکے ‘ ایسے لوگوں پر آسٹریلیا میں مقیم سعید خان کا یہ شعر کتنا صادق آتا ہے کہ
فلک پہ بیٹھ کے دنیا کو دیکھنے والے
مرے جہاں کے مسائل کو کیا سمجھتے ہیں
رات کوبھوکے سوجانے والے بچوں کو شام تک روٹی کی آس دلانے والا باپ جب گھر سے بھوکا نکل کر شہر کا رخ کرتا ہے تو اس کے بچوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر باپ کا کلیجہ غم واندوہ سے چھلنی ہوتا ہے ‘ صرف شام تک بچوں سے جدائی اور شہر تک سفر کرنے کے ہنگام اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے اسے اگرچہ امیر خسرو نے کسی اور حوالے سے برتا ہے تاہم صورتحال کی کچھ نہ کچھ وضاحت ہو جاتی ہے کہ
ابروباران ومن ویار ستادہ بہ وداع
من جدا گریہ کناں ‘ ابرجدا ‘ یار جدا
اسی کو احمدفراز نے یوں برتا ہے کہ
یہ جدائی کی گھڑی ہے کہ جھڑی ساون کی
میں جدا گریہ کناں ‘ ابر جدا ‘ یار جدا
اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں جو کیفیات ہیں ‘ ان کو بھوک سے ستائے ہوئے ان افراد کے حالات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو دکھ اور درد سے کلیجہ منہ کوآنے لگتا ہے ‘ تاہم سیاستدانوں کو حالات کو اپنی سوچ کے مخصوص عینکوں کے پیچھے دیکھنے کی جو عادت پڑ چکی ہے ‘ اسے شیکسپیئر کے ایک مکالمے میں بخوبی تلاش کیا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا ایک آئینے کی مانند ہے ‘ اسے جس رنگ کے شیشے سے جھانک کر دیکھو گے یہ اسی رنگ میں رنگی ہوئی دکھائی دے گی ‘ کہنا صرف اتنا ہے کہ”فرانس کی شہزادی” کو روٹی اور کیک پیسٹری میں فرق کا کیا پتہ ‘ اسے تو انواع و اقسام کے کھانے ہر وقت میسر ہوتے ہیں۔ وما علینا الالبلاغ

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش