مناسب فیصلہ

خیبر پختوانخوا بار کونسل نے صوبے میں وکلاء تنظیموں کی جانب سے بغیر اجازت عدالتی بائیکاٹ اور ہڑتال کرنے پر پابندی لگا کر نہایت مناسب فیصلہ کیا ہے۔اس ضمن میں اجازت کے بغیر ہڑتال کرنے والی بار ایسوسی ایشنز کے صدور اور جنرل سیکرٹریز کو شوکاز نوٹس جاری کر کے ان سے وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ اگرچہ دیر آید درست آید کے زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے مگر بحرحال اسے مناسب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا بار کونسل کی ایگزیکٹو باڈی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق صوبے میں بعض ایسوسی ایشنز نے بار کونسل کی اجازت کے بغیر عدالتی بائیکاٹ کے اعلانات کیے او ران ہڑتالوں کو کے پی بار کونسل رولز 2010ء اور کے پی بار کونسل میڈیا اینڈ سٹرائیک ریگولیشن رولز 2022ء کے خلاف قرار دیا جس کے تحت بار ایسوسی ایشنز کو بار کونسل کی اجازت کے بغیر ہڑتال کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ کمیٹی کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایسے بار ایسویشنز کو شوکاز جاری کیے جائیں گے کہ کس طرح انہوں نے رولز کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور کیوں نہ ان کے خلاف قانون کے مطابق تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ وکلاء معاشرے کے ان چند طبقات میں شامل ہیں جن کو اپنے شعبے میں سب سے پڑھا لکھا ہونے کا اعزاز حاصل ہے، یہ نہ صرف عام لوگوں کو قانونی معاونت فراہم کرتے ہیں بلکہ عام لوگوں کی سیاسی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، عدالتوں کی معاونت کر کے انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ تاہم یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے مسائل پر عدالتوں کا بائیکاٹ کر کے انصاف کی فراہمی کے حوالے سے اپنے کردار پر سوالیہ نشان ثبت کرنے میں معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں صوبے کے مختلف مقامات پر ایسے حادثات سامنے آئے جن میں وکلاء کے خلاف تشدد کا عنصر شامل تھا ، اگرچہ ان واقعات کے تانے بانے بعد میں ذاتی دشمنی میں پیوست دکھائی دیئے مگر متعلقہ بار کونسلز نے عدالتوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر کے انصاف کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے والے عوام کو مشکل میں ڈال دیا تھا، کیونکہ ایک روز کی اچانک ہڑتال سے اس روز شنوائی کے لیے مقدمات کی فائلیں قدر آسان بھی نہیں۔ بلکہ اکثر مہینوں بعد نئی تاریخیں مقرر کی جاتی ہیں۔ یوں عام مسائل کے لیے انصاف کا حصول ایک انتہائی پیچیدہ امر بن جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا بار کونسل نے اس قسم کی ہڑتالوں اور عدالتی بائیکاٹ کی حوصلہ شکنی کیلئے پیشگی اجازت سے مشروط کر کے مناسب قدم اٹھایا ہے ۔ امید ہے کہ معاشرے کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا طبقہ خود اپنی ہی تنظیم کے اس فیصلے پر تعاون کو ممکن بنا کر عدل و انصاف کے تقاضوں کی پاسداری کرے گا۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت