nadir shah 2

منزل مقصود پر پہنچتے ہیں وہی

جیسا کسی نے کہا ہے ”یہ ایک حقیقت ہے کچھ ٹھوکریں جسم پر لگتی ہیں جو شاید وقت کیساتھ ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن کچھ ٹھوکریں روح پر لگتی ہیں جو وقت کیساتھ ساتھ اتنی گہری ہوجاتی ہیں کہ اس کے آثار پورے جسم کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں” لیکن یہ بھی تو ایک سچ ہے کہ دنیا کی ساری چیزیں ٹھوکریں لگنے سے ٹوٹ جاتی ہیں مگر صرف انسان وہ چیز ہے جو ٹھوکر لگنے کے بعد بنتا ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ ٹھوکروں سے ڈرنے والے کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔ وہ لوگ جو عمر بھر مشکلات سے دوچار نہیں ہوتے وہ کبھی مضبوط نہیں ہوسکتے۔
یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان ٹھوکروں کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا ان سے حاصل شدہ سبق کو اپنے لئے مشعل راہ بناکر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ آپ کی قوت ارادی پر منحصر ہے۔ اگر آپ کی قوت ارادی کمزور ہے تو یہ ٹھوکریں آپ کو چکناچور کر سکتے ہیں اور اگر آپ کی قوت ارادی مضبوط ہے تو آپ ٹھوکریں کھاکے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ٹھوکروں سے گرنے والے کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر یہ انسان کو چلنا بھی تو سکھا دیتی ہے’ اسلئے ”زندگی کی ٹھوکریں انسان کیلئے بہترین ذریعہ تعلیم ہیں۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے ”بعض اوقات انسان نے زندگی میں ایسی ٹھوکریں کھائی ہوتی ہیں کہ جن سے اسے بہت سے سبق حاصل ہوئے ہوتے ہیں مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انسان وہ سبق بھولتا جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں ہر لگنے والی ٹھوکر کا بڑی باریک بینی سے تجزیہ کرے، اس میں اپنی ہونے والی غلطیاں نوٹ کرے اور اس ٹھوکر سے ملنے والے سبق کو اپنی ڈائری میں نوٹ کرلے۔ اگر یہ سلسلہ اپنے بڑھاپے تک جاری رکھیں گے تو یہ ڈائری اس کی زندگی کا بہترین نچوڑ ہوگی۔
دنیا میں آج تک کسی انسان نے سازگار حالات میں بڑا خواب نہیں دیکھا، بڑے خواب ہمیشہ محرومی کے دور میں دیکھے گئے۔ مشکلات کی انتہا نے انسان کی تکلیف کو اتنا بڑھا دیا کہ تنگ آکر وہ ایک بڑا قدم اُٹھانے پر مجبور ہوگیا اور اسی لمحہ اپنی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا۔ ایک فائٹر کے بیٹے نے ضد کرنا شروع کردی کہ اسے بھی چھلانگ لگانے کیلئے ساتھ لے جایا جائے مگر باپ یہی کہتا رہا کہ تو ابھی اس قابل نہیں ہوا۔ بالاخر بیٹے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور اس شرط پر ساتھ لے جانے کیلئے رضامند ہوگیا کہ پہلے ٹریننگ مکمل کرنی ہوگی۔ بیٹا خوش ہوگیا اور ٹریننگ شروع ہوگئی۔ باپ نے تمام حربے سکھائے۔ ہر طرح کے داؤ پیچ جو اس کے کام آسکیں’ سکھا دیئے۔ بیٹا اب تک ہر امتحان پر پورا اُتر رہا تھا جب دیکھا بیٹا ہر لحاظ سے تیار ہے تو اسے بلندی سے چھلانگ لگانے کو کہا، اس کا آخری امتحان تھا۔ وہ اتنی بلندی پر پہنچ کر ڈرنے لگا۔ یہ آخری امتحان اسے قطعی ناممکن دکھائی دے رہا تھا لہٰذا نیچے اُترا اور کہنے لگا کہ اتنی بلندی سے کودنے سے اس کی موت واقع نا بھی ہوئی تو بھی کم سے کم معذور ضرور ہوجائے گا۔ اس کے باپ نے تسلی دی اور کہا کچی زمین ہے تمہیں کچھ نہیں ہوگا، ہمت کرکے کود جاؤ۔ بیٹا نہیں مان رہا تھا مگر اس کا باپ مسلسل اصرار کرتا رہا اور کہتا رہا دیکھو میں ہوں نا نیچے۔ مجھ پر بھروسہ رکھو اور کود جاؤ۔ امتحان سر کرنا بہت ضروری تھا۔ بیٹا ڈرتے ڈرتے آخر کود ہی گیا۔ اس کے بعد اس کی آنکھیں ہسپتال میں کھلیں، جہاں بائیں جانب اس کا باپ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ اس نے ہوش میں آتے ہی شکوہ کرنا شروع کردیا میں نہیں کہتا تھا کہ چوٹ لگ جائے گی۔ یہ کیسا امتحان تھا جس میں واضع شکست دکھائی دے رہی تھی۔ نتیجتا میں ناکام رہا۔ کیا یہی اس کا مقصد تھا؟ تو اس کے باپ نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ”ہاں تم بری طرح ناکام رہے۔ اس امتحان کا مقصد تمہیں یہ سبق سکھانا تھا کہ کامیابی ایک دم اور راتوں رات نہیں ملتی بلکہ اس کیلئے سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ گرنا پڑتا ہے اور گر کے پھر اُٹھنا پڑتا ہے۔
جب آپ ایک دفعہ اس دنیا میں آگئے ہیں تو پھر آپ خود ہی سیکھ جائیں گے کہ بہت دفعہ آپ گریں گے، یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ باربار گرنے اور ناکام ہونے کے بعد آپ میں کچھ بصیرت پیدا ہونا شروع ہوگی اور بالآخر یہ بصیرت ہی ایک دن آپ کو اپنے پیروں پر کھڑا کردے گی۔
منزل مقصود پر پہنچتے ہیں وہی
راہ میں جو ٹھوکریں کھاتے ہیں
ایک بات اپنی ذہن میں ضرور بٹھالیںکہ کامیابی کے سفر میں کئی بار ناکامی سے گزرنا پڑے گا۔ انسان ناکامیوں سے اُلجھ کر ہی سلجھتا ہے۔ زندگی اس طرح کی مہم جوئی سے ہی سنورتی ہے۔ ٹھوکریں کھانے سے ڈٹے رہنے سے پتھر موتی میں اور لوہا اوزار میں بدلتا ہے۔ انسان کی تراش ٹھوکریں کھانے سے ہی ہوتی ہے۔ ٹھوکر کھانے سے گھبرانے والے ناکامیوں کی داستان بن گئے۔ آزمائش میں ثابت قدم رہنے والوں کو دنیا نے یاد رکھا۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ