4 68

منصب کی بلندی اور وزیراعلیٰ پنجاب

روسی وزیراعظم خروشیف اکثر ایک کہانی سنایا کرتے تھے۔ اس کہانی کے کردار تین قیدی تھے، ایک ڈیموکریٹ دوسرا انارکسٹ اور تیسرا ایک کم سن یہودی لڑکا۔ ایک دن سوشل ڈیموکریٹ نے تجویز پیش کی کہ جیل میں ملنے والی خوراک، سگریٹ اور چائے کی منصفانہ تقسیم کیلئے اپنے میں سے ایک لیڈر منتخب کرلیا جائے، انارکسٹ اپنی عادت سے مجبور تھا چنانچہ اس نے فٹ سے کم سن لڑکے کا نام لیڈرشپ کیلئے تجویز کر دیا اور یوں کم سن لڑکا لیڈر منتخب ہوگیا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے جیل سے فرار ہونے کا پروگرام بنایا اور اس مقصد کیلئے ایک سرنگ کھودی۔ اب ایک نئی مصیبت کا سامنا تھا، خدشہ یہ تھا کہ سرنگ کے راستے جو شخص پہلے باہر نکلے گا اُس کو فائرنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سوچ بچار جاری تھی کہ وہ لڑکا کھڑا ہوگیا اور بولا ”کامریڈز تم نے مجھے ایک جمہوری عمل کے ذریعے اپنا لیڈر منتخب کیا ہے لہٰذا میں سب سے پہلے سرنگ میں جاؤں گا” کہانی کا سبق خروشیف کے مطابق یہ تھا کہ ”ایک شخص کی ابتدا کیسی ہی عاجزانہ کیوں نہ ہو بالآخر اس منصب کی بلندی کو پا لیتا ہے جس کیلئے وہ منتخب ہوا ہوتا ہے”۔
کرونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تعریف عدالت عظمیٰ کی جانب سے کی گئی تو مجھے خروشیف کی کہانی یاد آگئی۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ابتداء بھی بہت عاجزانہ تھی، بحیثیت وزیراعلیٰ ان کی کارکردگی پر ابتدائی مہینوں میں سخت تنقید ہوئی۔ اپنے پرائے سب نے اس کارخیر میں حسب توفیق حصہ ڈالا۔ تنقید کرنے والے ان کا مقابلہ میاں شہباز شریف سے کرتے تھے، شہباز شریف تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہے تھے جبکہ 1985سے1993 تک وہ اپنے بڑے بھائی نوازشریف اور بعدازاں غلام حیدر وائیں کی وزارت اعلیٰ کی وجہ سے پنجاب کے انتظامی امور میں دخیل رہے، وہ تمام شعبوں اور انتظامی معاملات کی باریکیوں سے آگاہ تھے، اس کے باوجود بطور وزیراعلیٰ ان کی کارکردگی کو رول ماڈل کا درجہ دینا تو درکنار تسلی بخش بھی قرار دینا مشکل ہے۔سردار عثمان بزدار مزاجاً خاموش طبع ہیں چنانچہ خاموشی کیساتھ مصروف عمل رہے۔ ابتدا میں انہیں مشکلات کا سامنا رہا لیکن رفتہ رفتہ وہ آگے بڑھتے رہے اور بالآخر انہوں نے اس منصب کی بلندی کو پا لیا ہے جس کیلئے وہ منتخب ہوئے تھے۔ عاجزی کے جس وصف نے انہیں وزارت اعلیٰ کی کرسی تک پہنچایا اُس پر بہرحال انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے، اپنے وزراء اور سٹاف کیساتھ جو رویہ ان کا پہلے دن سے تھا وہ اب بھی ویسا ہی ہے۔ ان کی کابینہ کے ایک رکن کے بقول انہوں نے وزارت کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی اور کابینہ اجلاسوں میں بھی ان کا رویہ کبھی سخت گیر باس کا نہیں رہا۔ جہاں تک کارکردگی کو جانچنے کا تعلق ہے تو وہ بحیثیت وزیراعلیٰ اپنے وزراء سے بازپرس ضرور کرتے ہیں مگر اس انداز سے نہیں جو ان کے پیش رو وزیراعلیٰ کا خاصہ تھا۔ بعض خامیاں اور خرابیاں چونکہ سسٹم میں ان بلٹ ہیں اور وہ نظام میں بُری طرح سے پیوست ہیں لہٰذا ان سے چھٹکارا پائے بغیر حسن کارکردگی کی منزل کا حصول ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے ایک ڈپٹی کمشنرآفس پر ضرورت سے زائد انحصار ہے۔دسمبر کے مہینے میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ملاقات کا اہتمام تھا۔ 8کلب روڈ کے میٹنگ روم میں ہونیوالی نشست میں راقم الحروف نے مذکورہ خرابی کی طرف بطورخاص توجہ دلائی تھی لیکن اب تک اس طرف توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ضلع کی سطح پر تمام اہم شعبوں کے سربراہی ڈپٹی کمشنر کے پاس ہے۔ الغرض ڈپٹی کمشنر کی ذات شریف گھنٹہ گھر کی طرح ہے، اگر ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دیدی جاتیں اور اہم شعبوں، اتھارٹیز اور محکموں کے چیئرمینوں کا تقرر کر دیا جاتا تو آج وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں پنجاب ایک ماڈل صوبے کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا لیکن نجانے وہ کونسی خفیہ قوتیں ہیں جو اس طرف پیش رفت ہونے نہیں دے رہیں۔ بزدار صاحب مکمل جانفشانی کیساتھ بروئے کار تو ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بطور وزیراعلیٰ وہ عمران خان کی چوائس بنے تو ابتدا میں بہت تنقید ہوئی لیکن وہ یہ مرحلہ عبور کرچکے اب وہ جس تندہی اور جذبے کیساتھ کرونا کی وباء کیخلاف بروئے کار ہیں اس کی ہر طرف سے تحسین ہورہی ہے یعنی بالآخر منصب کی بلندی وہ پا چکے، انہیں اب نظام میں پیوست ان خرابیوں کیخلاف برسرپیکار ہونا ہے جن سے چھٹکارا حسن کارکردگی کی منزل کو حاصل کرنے کا مؤجب بنے گا۔ حسن کارکردگی جن دس بنیادی اصولوں کی مرہون منت ہوتی ہے انہیں ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ آج تک پنجاب کو جن خطوط پر چلایا جاتا رہا ان کا محور حکمران کی ذات تھی۔ سردار عثمان بزدار جیسے عاجزی کے پیکر وزیراعلیٰ سے قطعاً اس برائی کی اُمید نہیں ہے، وزیراعظم کا ریاست مدینہ کا تصور متقاضی ہے کہ طرزحکمرانی کا محور حکمران کی بجائے عام آدمی کا مفاد ہو چنانچہ عثمان بزدار عمران خان کی توقع کے مطابق وسیم اکرم پلس اُس وقت بن سکتے ہیں جب وہ عام آدمی کی مشکلات کو پیش نظر رکھ کر حکومتی پالیسیاں ترتیب دیں اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کیلئے ضروری قانون سازی کو اولین ترجیح کا درجہ دیں بصورت دیگر ذاتی تشہیر سے گریز اور نمود ونمائش سے پرہیز جیسی اعلیٰ صفات بھی کسی کام نہیں آئیں گی۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس