منصوبہ بندی کا فقدان

ہمارا ملک اگر سارا سال بحرانوں کی زد میں رہتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کبھی گندم نہیں تو کبھی آٹا ندارد، کبھی گیس کی لوڈ مینجمنٹ تو کبھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ، کبھی ایل این جی کی کمی تو کبھی قدرتی گیس کے ذخائر مسلسل سکڑنے کا رونا، کبھی سموگ کا روگ تو کبھی سیلاب کی تباہ کاریاں، کبھی بجلی کی فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر قیمتوں میں کمی بیشی تو کبھی پٹرول کے بڑھتے ہوئے نرخ۔ پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ ارض پاک پر کوئی دن ایسا نہیں اترتا جب عوام کا استحصال نہ ہوا ہو اور ان کے حقوق پامال نہ ہوئے ہوں، ہم آزادی کی75 ویں سالگرہ منا چکے ہیں لیکن اب تک یہ نہیں جانتے کہ ہمیں کرنا کیا ہے اور جانا کدھر ہے، ہماری منزل کون سی ہے۔ زیادہ معاملات کو نہ چھیڑتے ہوئے صرف زرعی شعبے کی بات کر لی جائے تو واضح ہو جائے گا کہ ہمارے ترقی نہ کر سکنے کی وجہ کیا ہے۔
ایک وقت تھا جب ایک آنے کی دال ملتی اور روٹی فری ہوتی تھی۔ غریب سے غریب بھی چار آنے میں پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ پنجاب میں روٹی 15 روپے جب کہ نان 22 روپے میں مل رہا ہے اور سالن کی آدھی پلیٹ بھی70,80روپے سے کم میں دستیاب نہیں یعنی ایک فرد کو ایک وقت اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کم از کم ڈیڑھ سو روپے کی ضرورت ہو گی اگر وہ دو وقت چائے پینے کی خواہش بھی رکھتا ہے تو اخراجات فی بندہ دو سو روپے سے اوپر ہو جاتے ہیں۔ یہ میں سادہ ترین کھانے کی بات کر رہا ہوں یعنی جو دال روٹی بیس تیس سال پہلے ایک آدھ روپے میں مل جاتی تھی اب وہی کم از کم دو سو روپے میں مل سکے گی۔ اِس سال تو تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ویسے ہی بہت سا رقبہ گندم کی کاشت کے قابل نہیں ہو سکا ہے لیکن جب سیلاب نہیں آیا تھا اس وقت بھی ہم نے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا تھا تب بھی ہم گندم درآمد کر ہی رہے تھے۔
پاکستان کی 60 فیصد معیشت زراعت پر منحصر ہے جب کہ ہمارے صنعتی شعبے کا دارومدار بھی زراعت ہی پر ہے۔ اِس کی44فیصد لیبر فورس زرعی شعبے سے آتی ہے اور جی ڈی پی کا21 فیصد اِسی شعبے سے حاصل ہوتا ہے جب کہ اِس شعبے کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ملک اربوں ڈالر سالانہ غیر ملکی زرمبادلہ سے محروم ہو رہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گندم کی کاشت کیلئے ضروری لوازمات کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسانوں نے گندم چھوڑ کر وہ فصلیں کاشت کرنا شروع کر دیں جن میں انہیں کچھ منافع حاصل ہونے کی امید تھی، یوں گندم کی کاشت کا رقبہ کم ہو گیا اور پیداوار بھی۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے لیکن کسی نے اِس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سب سے پہلے تو کسانوں کو اچھے اور بہتر پیداوار والے بیج تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ مل جائیں تو پٹرول،ڈیزل اور بجلی کی مہنگائی آڑے آ جاتی ہے کہ ڈیزل کے بغیر زمین پر ہل نہیں چلایا جا سکتا یعنی اسے کاشت کے قابل نہیں بنایا جا سکتا، پانی اگر ٹیوب ویلوں کے ذریعے حاصل کرنا پڑے تو بجلی استعمال ہوتی ہے، اگر اِن مسائل کو حل کر لیا جائے تو کھادوں کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والے کسان کا راستہ روکے کھڑے نظر آتے ہیں۔ کھاد مل جائے تو حشرات کش اور جڑی بوٹی مار ادویات کا حصول ایک مشکل امر بن جاتا ہے کہ یہ خالص نہیں ملتیں، اکثر ملاوٹ والی، دو نمبر اور ناقص ہوتی ہیں۔ یہ ہو جائے تو آڑھتی منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں۔ اِس سارے عمل میں اگر کوئی فائدے میں رہتا ہے تو وہ آڑھتی ہے جو گندم خرید کر صرف منڈی تک منتقل کرتا اور بھاری منافع کماتا ہے۔ حکومت نے کسان سے براہ راست گندم خریدنے کی منصوبہ کر رکھی ہے لیکن آڑھتی پھر بھی اپنا مال بنا جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسان فصل کاشت کرنے کے باوجود ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے باعث اپنی پیداوار کو بیچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کسان جو گندم پیدا کرتا ہے اس کا ایک بڑا حصہ سمگل ہو جاتا ہے اور ہمارے عوام خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں لہذا مہنگی گندم اور آٹا خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارے مسائل اتنے بڑے ہیں کہ حل نہ کئے جا سکیں یا یہ حکومت کے دائرہ اثر سے باہر ہیں؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے بلکہ صرف پلاننگ کی کمی ہے جس کی وجہ سے ہم مسلسل مار کھا رہے ہیں اور بیرون ملک سے مہنگی گندم خرید کر کھانے پر مجبور ہیں۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار