3 321

منڈی کی سیاست’ موروثیت اور سیاسی پناہ گزین

جوڑ توڑ’ خرید وفروخت اور مانگے تانگے کے اس مکدر ماحول میں یہ کوئی اچھنبے والی بات بھی نہیں کہ تین ووٹوں والی جماعت نے چار اُمیدوار میدان میں اُتار دیئے ہیں۔ ایسا صرف پاکستان ہی میں ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم جماعت نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ دیگر جماعتوں نے اتحاد کیلئے رابطہ کیا ہے یہ خبر گزشتہ روز کے اخبارات میں چھپی تھی جبکہ آج ان سطور کے لکھتے وقت تازہ خبرمیں ان ”رابطوں” کی تصدیق کی خبر بھی آگئی ہے اور نہ صرف جمعیت علماء اسلام بلکہ (باپ) یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کے وفود نے المرکز السلامی میں سینیٹر مشتاق احمد خان سے ملاقات کرکے تعاون کی درخواست کی ہے’ اب یہ فیصلہ جماعت کے مرکزی رہنماؤں نے کرنا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ اپنے تین ووٹوں کو اپنے چار اُمیدواروں کیلئے استعمال کرکے ضائع کرتے ہیں’ کسی دوسری جماعت کیساتھ ”اللہ” کیلئے دست تعاون دراز کرتے ہیں یا پھر اپنے اُمیدواروں کو”منڈی کی سیاست” کی تلقین کرتے ہیں۔ کہ وہ بھی اس ”بہتی گنگا” میں ”سرمایہ کاری” کرکے خود بھی اشنان کرتے ہیں اور ”سنہری مچھلیاں” بھی پکڑتے ہیں’ تاہم یہ تو ایک معلوم حقیقت ہے کہ جماعت ”مول تول” کی سیاست نہیں کرتے’ اگرچہ جس موروثی سیاست پر جماعت کے رہنما لعن طعن کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، وہ خود بھی اس کا شکار رہی ہے یعنی جس زمانے میں ایم ایم اے کے نام سے بعض دینی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر تھیں اس دور کو دیکھیں تو پارلیمنٹ کے ہر ایوان میں انہوں نے ٹکٹ اندھا بانٹے ریوڑیاں کے مصداق اپنوں بلکہ بہو بیٹیوں ہی میں تقسیم کئے تھے اور سب سے بڑا ظلم سینیٹ کے سلسلے میں یہ کیا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک نشست پر باہر سے درآمد کرکے پروفیسر خورشید احمد کو ٹکٹ دیکر ایک ”نئی طرز سیاست” کی بنیاد رکھ دی تھی’ اس پر انہی کالموں میں راقم نے اس زمانے میں متعدد مواقع پر اعتراض بھی کیا تھا کیونکہ دوسرے صوبے سے لا کر ایک شخص کو خیبر پختونخوا کا حق مارنے کا جماعت نے کن اخلاقیات کے تحت فیصلہ کیا تھا جبکہ پروفیسر صاحب نے اپنے پورے دور میں اس صوبے کے حق کیلئے بھی آواز بلند نہیں کی تھی’ ایسی صورت میں جب جماعت کے رہنما موروثیت کیخلاف آواز اُٹھاتے ہیں تو اصولی طور پر اس مطالبے کے جائز ہونے کے باوجود ان کے مطالبے پر حیرت ہونا ایک فطری امر ہے۔ اسی واقعے کے دیکھا دیکھی دیگر جماعتوں نے بھی یہی وتیرہ اختیار کر رکھا ہے اور اب جہاں ایک جانب موروثیت یا خاندانیت کے مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں’ وہیں ایک صوبے سے ”ضرورت شعری” کے طور پر ضرورت سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی پناہ گزینوں کی ادھر ادھر جانا عام سی بات ہو گئی ہے’ اس سلسلے میں تازہ ترین سیاسی مہاجرت ستارہ ایاز اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی دیکھی جا سکتی ہے’ خیر جہاں تک یوسف رضا گیلانی کا ملتان سے اپنا ووٹ اسلام آباد منتقل کرنے کا تعلق ہے تو ایک تکنیکی نقطے کے تحت یہ اتنی معیوب بات نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد وفاقی دارالحکومت ہونے کے ناتے ہر پاکستانی کا ہے کہ یہ کوئی الگ صوبہ نہیں بلکہ ملک کا مرکزی شہر ہے جس پر ہر پاکستانی کا حق فائق ہے’ البتہ خیبر پختونخوا سے اپنا ووٹ اُٹھا کر بلوچستان منتقل کرنا اور وہاں سے اپنے لئے سینیٹ کی نشست حاصل کرنا’ متعلقہ صوبے کے عوام کے حق پر ”تصرف” کے زمرے میں آتا ہے، جیسے کہ پروفیسر خورشید احمد کی ماضی میں جماعت کی جانب سے نامزدگی کو خیبر پختونخوا کا حق مارنے سے ہم تشبیہہ دیتے رہے ہیں’ اسی طرح ستارہ ایاز کو مبینہ طور پر ”باپ” کی طرف سے ٹکٹ دینے کو بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لئے اس قسم کی ”سیاسی مہاجرت” کیخلاف تمام سیاسی جماعتوں کو آواز اُٹھانی چاہئے، حاشا وکلا ہم ذاتی طور پر کسی کے بھی الیکشن میں حصہ لینے کیخلاف ہیں نہ ہی ہم ستارہ ایاز صاحبہ کو آج تک ملے ہیں’ ہم تو صرف اصولی سیاست کی بات کرتے ہیں اور ہم بھی اس موروثی سیاست کے ہمیشہ سے نقاد رہے ہیں، دراصل یہی ہماری سیاست کے ٹیڑھ پن کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ اب بھی دیکھیں تو نہ صرف اسمبلیوں میں ایسے خاندانوں کی برتری نظر آتی ہے بلکہ اب سینیٹ کے آنے والے انتخابات میں بھی ایک بار پھر ایسے ہی نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں، تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے کے مصداق سامنے آنے والے اُمیدواروں کے حوالے سے ”رشتہ داریوں” کی پوری تفصیل عوام کے سامنے اور اخبارات ومیڈیا پر آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مختلف ایوان بہت حد تک ”خاندانی کلب” بن چکے ہیں جو ان ایوانوں میں پہنچ کر اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن چکے ہیں، اپنے لئے تو مکھن حاصل کرتے ہیں جبکہ بے چارے عوام کو لسی بھی خالص دینے پر راضی نہیں ہوتے۔ بقول انور مقصود
میرے پانی میں ملا اور ذرا سا پانی
میری عادت ہے کہ پیتا ہوں میں پتلا پانی
مجھ کو شوگر بھی ہے اور پاس شریعت بھی ہے
میری قسمت میں نہ میٹھا ہے نہ کڑوا پانی

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''