5 377

موت ا لعَالِم موت العَالَم

قارئین! دنیائے اسلام گزشتہ شام ایک دل اندوہناک سانحہ سے گزری، جس کو شام غریباں سے تعبیر کیا جائے تو بھی کم ہے۔ عظیم مفکر ایو ریحان نے اطلاع سانحہ دی کہ عالم اسلام کے عظیم تر عالم دین مولانا وحیدالدین نے کرونا کو گلے لگا لیا اور دنیا سے رخصت پالی۔ قارئین، دوست احباب وعزیز اقارب جن کا میں گزشتہ ایک سال سے ایسی مونس وموودت کا احسان مند ہوں کہ تاقیامت تک یہ قرض اُتار پانے کی استعداد نہیں رکھتا، انہیں اس کا اجر عظیم اللہ تعالیٰ ہی دے گا، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کرونا میں مبتلاء نہیں بلکہ کئی موذی امراض کا شکار ہوکر زیست اور موت کا تختہ مشق بن کر رہ گیا ہوں، منتظر ہوں کون اپنی کمائی پاتا ہے، خود ٹائپنگ نہیں کر پا رہا ہوں میری صوت سے ایک ہمددر الفاظ کونقش کا روپ دے رہے ہیں، اگر کسی غلطی یا الفاظ کا ڈھنگ درست نہ پایا جائے تو معذرت، مولانا وحید الدین نابغہ روزگار شخصیت تھے، پاک وہند کی عظیم شخصیت اور معروف عالم دین مولانا وحیدالدین خان انتقال کرگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مولانا وحید الدین خان کافی عرصے سے علیل تھے، کورونا وائرس کی بیماری کے باعث حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ مولانا وحید الدین خان کی عمر 96سال تھی، مرحوم ایک عظیم عالم دین تھے اور کوئی 200 کتابوں سے زائد کے مصنف بھی تھے، مرحوم مولانا مودودی کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ مولانا وحید الدین خان کی رِحلت پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم تقریباً ایک صدی تک پورے خلوص کیساتھ ترویج و فروغِ اِسلام کیلئے جہاد بالقلم میں مصروفِ عمل رہے۔ قارئین اس حقیقت سے شاید واقف نہ ہوں کہ وہ کوئی لگ بھگ ایک درجن بھر زبانوں سے کماحقہ آگاہ تھے، خاص کر انگریزی، اُردو، فارسی، عربی، فرانسیسی، جرمنی، ہندی، سنسکرت اور جنوبی ہند کی کئی زبانوں پر ان کو عبور حاصل تھا ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جس زبان میں بھی تحریر ثبت کرتے براہ راست اس کو ضبط تحریر میں باالقلم خود لاتے، انہوں نے حاضر کے مسلمانوں کو ایک بات بڑی باریک بینی سے سمجھائی کہ استعداد کے مطابق دشمن کی طرف پیش قدمی کرو، پہلے قوت واستعداد حاصل کر پھر قدم اُٹھاؤ، موجودہ توانائیوں کو برباد نہ کرو، اس جا نب کا رخ کرو جہاں بڑھ سکتے ہو، بھڑ سکتے ہوں، دشمن تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان اپنی رہی سہی تمام توانائیاں گھر بیٹھے ضائع کر دے اور گھر بھی خود ہی تباہ کردے۔ مولانا اپنی ایک کتاب ”اوراق تاریخ” میں رقم طراز ہیں کہ ہمارے اخبارات ورسائل میں جو موضوعات بہت زیادہ رائج ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی شخصیت اپنی عمر پوری کر کے اگلی دنیا کی طرف جاتی ہے تو بڑے جذباتی قسم کے مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ روشن چراغ بجھ گیا، آفتاب علم غروب ہوگیا، ملت کا چاند دنیا سے چلا گیا وغیرہ۔ اس قسم کی سرخیاں مرنے والوں کے بعد ہماری صحافت میں اتنی بار شائع ہو چکی ہیں کہ اگر یہ واقعتا صحیح ہوں تو اب تک اتنا زیادہ اندھیرا چھا جانا چاہئے کہ ان سرخیوں کو پڑھنا بھی کسی کیلئے ممکن نہ رہے۔ ”ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی” یا اس کے ہم معنی سرخیاں ہمارے اخبارات و جرائد میں عام ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہر مرنے والا جب صرف ہماری ویرانی اور ہماری تاریکی میں اضافہ کر رہا ہے تو اس کے بعد روشنی کہاں باقی رہے گی”۔ مولانا کا خیال ہے کہ یہ مبالغہ دورزوال میں تشکیل پانے والا رویہ ہے۔ وہ اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کا انتقال ہوا، تو ان کے لڑکے ہشام کی زبان سے ایک شعر نکلا کہ ”قیس کی موت تنہا ایک شخص کی موت نہیں بلکہ اس کے مرنے سے قوم کی بنیاد منہدم ہو گئی ہے”۔ یہ سن کر عبدالملک بن مروان کے دوسرے بیٹے ولید نے اسے ڈانٹ دیا کہ چپ ہو جا تو شیطان کی زبان بول رہا ہے، پھر اس نے اپنے بھائی کو ایک اور شعر سنایا کہ: ”جب ہم میں سے کوئی سردار مرتا ہے تو دوسرا سردار کھڑا ہو جاتا ہے”۔ مولانا وحیدالدین کی اعلیٰ خوبی یہ تھی کہ ان کی تحریر اور تقریر میں کوئی سقم نہیں ہوتا، سادہ رواں الفاظ میں ضرورت کی گہرائی اور گیرائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی اور وہ نئی فکر وسوچ کیساتھ دین کو پیش کرتے رہے۔ شاید اس بڑی حقیقت سے کم ہی لوگ آگاہ ہیں کہ اٹھارویں صدی میں جتنی بھی اسلامی تحریکیں انقلابی طور پر اُبھریں، ان میں صف اول میں جن افراد کا کردار رہا ہے ان کی فہرست تو ناختم ہونے والی ہے تاہم ان چند شخصیات میں صف اول میں شمار ہونے والوں میں جمال الدین افغانی، مصر کے قطب شہید، ناصر الدین البانوی، ایران کے علی شریعتی، افغانستان کے حبیب اللہ نیازی وغیرہ وغیرہ وہ شخصیات ہیں جن کی بدولت آج بھی یہ تحاریک زندہ سلامت جدوجہد کا نمونہ بنی ہوئی ہیں۔ مولانا وحیدالدین کے اس اندوہناک سانحہ پر کیا تحریر کیا جا سکتا ہے اگر قارئین کے پاس اس پائے کے الفاظ ہیں تو ضبط تحریر میں لائیں یہ انمول ہیرے تھے جو خاک نشین ہوگئے اور ثابت کر گئے اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔(میرے لئے دعا فرمائیے کہ جلد سے جلد قارئیں کی محفل میں حاضر ہو جا ؤں)

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں