مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو

یہ غالباً سال 1977کی بات ہے کہ ایک دن انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور کے ہاسٹل میں میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔باہر نکل کر دیکھا تو درمیانی عمر کا ایک خوش لباس شخص کھڑا تھا، کمرے میں آئے اور تعارف ہوا۔ ہماری یونیورسٹی کا فارغ التحصیل اور ملازمت کی غرض سے اُس وقت امریکہ میں مقیم تھا ۔ اب وہ چھٹیاں گزارنے لاہور آیا تو اُسے اپنے ہاسٹل کے اس کمرہ کی یاد آئی جہاں وہ تیس برس قبل رہتا رہا۔
چائے پینے اور چند باتیں کرنے کے بعد وہ دیر تک گم صم بیٹھا کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ آخر خاموشی توڑی اور کہا کہ وقت کے تیز رو دھارے نے بہت کچھ نگل لیا مگر اس کمرہ نے ابھی مجھے وہ جھلک بھی دکھائی کہ مَیں سامنے کونے میں بیٹھا پڑھ رہا ہوں اور پھر دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق کی باز گشت سنائی دی۔ اُس نے گھمبیر آواز میں اجازت لی اور چلا گیا۔ ہمارے ایک دوست بھی جب اپنے گاؤں جاتے تو والدین کی قبروں پر دعا مانگنے کے بعد اپنی جائے پیدائش کا رخ ضرور کرتے۔ وہ کہتا کہ اُس ٹوٹے پھوٹے گھر کے درو دیوار مجھے بُلا رہے ہوتے ہیں ، جب وہاں جاتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرا بچپن واپس لوٹ آیا ہے، تمام مانوس چہرے اور محبت کرنے والے آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں ۔ پورا گھر میرے اور میرے والدین کی آوازوں سے گونج رہا ہوتا ہے۔ ماضی سے جڑے رہنا اور اس میں گھومنا پھرنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہوتا۔
ماضی انسان کی ایسی کہانی ہے جو ہمیشہ اس کے اندر رہتی ہے اور موت آنے تک ختم نہیں ہوتی۔ ماضی کی یادیں انسان کی انگلی پکڑ کر اُسے ایک ایسی دُنیا میں لیے پھرتی ہیں جس کے ہر منظر میں وہ موجود ہوتا ہے اور پھر اس سے جڑے ماحول میں کھو جاتا ہے ۔ اپنے چشم تصور میں ماضی کے ہر لمحے کی دلکشی سے شاداں اور کہیں کہیں اس میں چھپے ہوئے کرب سے آزردہ ہو جاتا ہے ۔ ایک اکثریت اپنی یادیں لکھنے اور بیان کرنے پر قادر نہیں ہوتی مگر اس کے نہاں خانۂ دل میں موجزن رہتی ہیں جو مدت بعد کسی چہرہ کو دیکھنے اور کسی مقام سے گزرنے پر اُسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں ۔انسانی معاشرے کا مرکز گھر ہوتا ہے ۔ فرد کی جڑیں اپنے گھر سے جڑی ہوتی ہیں جیسے کسی تناور درخت کی شاخیں چاہے کتنی دُور تک پہنچ جائیں مگر اس کا بنیادی رشتہ اسی مٹی سے ہے جس میں اس کی جڑیں اتری ہوئی ہیں۔ اسی طرح فرد چاہے اپنے گھر سے بہت دُور کہیں چلا جائے ، تلاش معاش یا کسی مجبوری کے تحت نقل مکانی بھی کر لے مگر دل سے اپنے پہلے گھر کی یاد نہیں جاتی ۔ مجھے اپنی تعلیم اورملازمت کی وجہ سے آبائی شہر کو چھوڑے45 سال گزر گئے اور اس عرصہ میں والدین ، بھائیوں ، عزیزوں اور دوستوں سے ملنے کو اپنے شہر آنا جانا میرا معمول رہا ہے۔ عزیزوں اور دوستوں سے انسان کی زندگی عبارت ہے ، ان سے ملنے ملانے میں مجھے بڑی طمانیت حاصل ہوتی ہے ۔ جب آبائی شہر میں ہوتا ہوں اور کسی سمت بھی رخ کر لوں تو تمام راستے ، گلیاں ، کوچے ، مکانات، بازار میں دکانیں اور چھوٹی بڑی سرکاری عمارتیں، ہر جگہ اپنائیت محسوس ہوتی ہے ۔ میرا ایک گھر شہر میں اور دوسرا چھاونی کے علاقہ میں ہے۔ والدین اب اس دُنیا میں نہیں رہے۔ شہر والا گھر خالی ہے اور بھائی نے چھاونی والے گھر کو آباد کر رکھا ہے۔ جب بھی آبائی شہرجانا ہوتا ہے تو اپنے پرانے دوستوں کو ملنے اور شہر والے گھر کو دیکھنے ضرور آتا ہوں۔ اس خالی مکان میں کچھ دیر اکیلا بیٹھ کر کبھی در و یوار کو دیکھنا تو کبھی کمروں کے اندر جھانک لینا۔ یوں لگتا ہے کہ اس مکان نے ابھی تک ہمارا ماضی اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔ ایک خوشگوار سا منظر آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ، تھوڑی دیر تک یہ منظر لبھائے رکھتا ہے پھر اچانک سارے منظر نظروں سے ہٹ جاتے ہیں ۔ وقت کا احساس تنہا کر دیتا ہے اور ایک عجیب سی اُداسی لیے خالی مکان سے باہر نکل آتا ہوں ۔ بچپن ،جوانی ، شادی،بچے، والدین ، بھائی ، عزیز و اقارب ، تقریبات اور ان سے وابستہ یادوں کی گونج مسلسل سنائی دیتی ہے ۔ یہ مکان بڑا ہی اچھا تھا۔ اسی لیے تو ہماری خوشیوں کے تمام ماہ وسال یہاں گذرے ۔ محبتیں ، چاہتیں ، قہقہے ، ادب آداب ، تواضح ، خلوص، رشتوں ناطوں کی چہل پہل ، گویا ہر دن میلہ لگا رہتا۔ کبھی کبھی تو اس مکان کا خالی پن شکوہ کر رہا ہوتا ہے ، یہی کہ تم لوگوں کو ہر دم خوش رکھا اور پھر بھی فراموش کر دیا ۔ اب میں کیسے کہتا کہ یہاں سے چلے آنے کے بعد ہمیں کتنے غموں نے گھیر لیا ۔ یہ بھلا کیسا انصاف ہوتا کہ خوشیاں دیکھنے والے مکان کو اس کے مکین اپنے غموں سے افسردہ کرتے اور مکمل خاموشی اوڑھے وہاں رہتے ۔ اس کے ساتھ ہی ماموں مرحوم کا مکان ہے جن کے نام کی تختی اب بھی موجود مجھے اندر جانے کی دعوت دے رہی ہوتی ہے کہ آؤ یہاں بھی کچھ نہیں بدلا ، ہر منظر میں ماموں اور تم سب موجود ہو۔ مگر ایسا نہیں ہے ، یہ ان مکانوں کی یادیں ہیں
بے سبب نہیں یہ خالی گھروں کے سناٹے
مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج