مہارت اور تعلیم مگرہنر کے ساتھ

عصری تعلیم کی ضروریات کے حوالے سے چند سطریں اس امید پر لکھ رہی ہوں کہ میرے جوانسال طالب علم قارئین کی مشکلات ومسائل زیربحث آئیں۔ میرے نزدیک نوجوانوں کو اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے اور اپنے لئے مضمون اور شعبے کا انتخاب کرنا چاہئے کہ آنے والے وقتوں میں سرکاری ملازمت کا تناسب ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا اور وہ بھی ملے گی خوش قسمت افراد کو اس وقت میڈیکل اور انجینئرنگ کا بڑا چرچا ہے ہر دوسرا طالب علم اور ان کے والدین ڈاکٹری اور انجینئرنگ کا خواب دیکھتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف پنجاب میں سولہ ہزار سے زائد ڈاکٹرز حصول ملازمت کے لئے سر گرداں ہیں خیبر پختونخوا کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ۔ نیو ٹریشن آپٹی میٹری اڈیالوجی اور فارمیسی جیسے شعبہ جات میں بھی اگلے کئی سالوں تک ملازمت کے کوئی مواقع نہیں نجی شعبے میں تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ ایک شخص بمشکل اپنا ہی گزارہ کر سکتا ہے لہٰذا نوجوان ایسے شعبوں کا انتخاب کریں جس کا سکوپ بیرون ملک ہویا پھر وہ فری لانسر کے طور پر روزگار کمانے کے قابل ہوں۔آرٹس یعنی فنون کے شعبوں کا انتخاب بیروزگاری مول لینے کے مترادف ہو گا الاماشاء اللہ اس شعبے میں سخت محنت کے بعد کوئی مقام حاصل کیا جا سکے ہر طالب علم مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ مرکزی اور صوبائی ملازمتوں میں نہیں جاسکتا اس سے کم کی ملازمتوں کے لئے رشوت اور سفارش یہاں تک کہ میرٹ پہ بھی کوئی آئے تب بھی ان کی قسمت اچھی ہو تو نہیں کہا جا سکتا وگر نہ کہیں نہ کہیں نذرانہ دنیا ہی پڑتا ہے یا پھر سیاسی اور کسی ایسے باثر شخص سے سفارش جسے حکومت اور متعلقہ عہدیدار کے لئے نظر انداز کرنا آسان نہ ہو ایک طبقہ اپنے بچوں کو سیلف فنانس سکیم پربھی پڑھاتا ہے مگر یہاں میرٹ پر انجینئر اور ڈاکٹر بننے والوں کو کچھ نہیں ملتا ان کو کیا ملنا ہے پرائیویٹ ایم بی بی ایس کروانے والے والدین کی بھی دو اقسام ہیں اگر کسی کی سالانہ آمدن کروڑ روپے سے زائد ہے وہ ایسا کرائیں تو مضائقہ نہیں جولوگ زمین اور زیور فروخت کرکے پنش کی ساری رقم اور ادھار لیکر بچوں کو پرائیویٹ میڈیکل کالجوں سے میڈیکل کی تعلیم دینے کا سوچ رہے ہیں ان کو باز آجانا چاہئے یہاں میں ایک افسوسناک واقعہ اور ایک مکالمہ بارے آپ کوبھی شریک کرنا چاہوں گی افسوسناک واقعہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ایک پرنسپل صاحب کا اکلوتا بیٹا تھا ساری جمع پونجی اور پنشن لگا کر انہوں نے بیٹے کونجی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کروایا ڈاکٹر بننے کے بعد بدقسمتی سے نوجوان کو کینسر ہوا اور باپ کے پاس علاج کی رقم نہ تھی باقی آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہوا ہوگا اسی طرح ایک ڈاکٹر کواپنی بیٹی کو بھی ڈاکٹر بنانے کا شوق چڑھا موصوف کے حوالے سے دیگر معلومات مناسب نہیں بس اتنا بتا دوں کہ وہ کوئی زیادہ اونچے اور مالدار ڈاکٹر نہیں تھے اور بھی چار پانچ بچے تھے ایک نشست میں بات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ کتنا خرچ آئے گا انہوں نے اندازتاً حساب لگا کر ساٹھ لاکھ روپے بتائے اس وقت حیات آبادمیں ستر پچھتر لاکھ کا پانچ مرلہ گھر ملتا تھا میں نے ان کو کہا کہ بجائے اس کے کہ آپ یہ رقم خرچ کرکے بیٹی کوڈاکٹر بنائیں اس رقم سے ان کے لئے گھر خریدیں اور بچی کو کسی اچھے مضمون میں بی ایس کرائیں یاپھر میڈیکل ہی کے دیگر شعبوں میں سے کسی شعبے میں پڑھائیں انہوں نے جب میری طرف کچھ متعجب نظروں سے دیکھا تو میں نے سوال کیا کہ چارپانچ سال لگا کرصاحبزادی ڈاکٹر بنے گی پھرملازمت کرے گی یہ بتائیں کہ وہ یہ ساٹھ لاکھ روپے بطور ایم بی بی ایس ڈاکٹر کتنے عرصے میں کمائے گی اور بچاپائے گی اس ڈاکٹر کا جواب تھا ساری زندگی ۔اس طرح کی صورتحال اپنی جگہ ہر کسی کا اپنا فیصلہ اور ذہن ہوتا ہے لیکن بطور ماں باپ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے وسائل کسی ایک پرخرچ کرکے باقی بچوں کو توزندگی بھرکے لئے رلاتو نہیں سکتے اس کا بہترین حل بچوں کو کوئی ہنرمند ڈگری دلوانا ہے ان کوایسے تعلیمی اداروں میں اخل کرناہے کہ وہ اپنا روزگاراپنی ہنرمندی سے کماسکیں ہنر مندی سے مراد موٹرمیکینک سے لے کر آئی ٹی کی اعلیٰ ڈگری مگر عملی طور پرسیکھ کر کام کرنے کے قابل ہونے کا ہے اب یہ بچے اور والدین کی استعداد پرمنحصر ہے کہ وہ کس چیز کا انتخاب کرتے ہیں دیگر کے حوالے سے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی البتہ جووالدین اپنے بچوں کو جامعات میں پڑھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ ہنر مند اور تربیت یافتہ عملی کام سکھانے والے تعلیمی اداروں کا کورس دیکھ کراپنے بچوں کو وہاں داخل کرائیں کوشش ہونی چاہئے کہ جو ادارے مستقبل کی ضروریات کومد نظر رکھ ہنرمندی کی تعلیم دے رہے ہوں ان کو فوقیت دی جائے ۔ وطن عزیز میں دینی تعلیمی اداروں کے نصاب پر تو بہت بحث ہوتی ہے حالانکہ وہ اپنے نصاب کے مطابق دینی علوم سے بہرہ ورعلماء فارغ التحصیل کرنے کا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں دین ایسا شعبہ بھی نہیں جس میں ہر کوئی اپنی رائے دے مجھے دینی تعلیم پرانگلی اٹھانے والوں پر حیرت ہوتی ہے میں ان سے صرف یہ گزارش کروں گی کہ وہ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر کسی بڑے عالم دین سے پڑھیں اور سمجھیں اس کے بعد بھی اگر ان کو دینی علم کی جدیدیت کی ضرورت محسوس ہو تو پھر اس پربحث ہو سکتی ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہر مولوی اور عالم دین اعلیٰ پائے گا عالم نہیں ہو سکتا نیز دینی علوم کوبدقسمتی سے اب دنیا کمانے اور بطور کسب اپنانے کا بھی رواج ہوگیا ہے چلیں دینی علوم توہمارا موضوع ہے ہی نہیں یہ جوسرکاری جامعات اورنجی جامعات ہیں ملک میں کم ہی ایسی جامعات اور ادارے ہیں جہاں سے فارغ التحصیل ڈگری کے ساتھ ہنر اور کام سیکھ کر نکلتے ہیں جن اداروںسے سند اور ہنر دونوں سیکھ کر لوگ نکلتے ہیں ان کوروزگار کامسئلہ نہیں بلکہ ان کو ترجیحی بنیادوں پراور ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے باقی سے فارغ التحصیل کا حال سب کے سامنے ہے پاکستان میں روزگار کے مواقع کی کمی کا موزوں حل یہی نکل سکتا ہے کہ ہمارے جامعات اور ادارے ایسے تعلیم یافتہ ‘ ہنرمند نوجوان تیار کریں ان کو ایسی تعلیم دی جائے اور ان تمام لوازمات سے آراستہ کیا جائے جوبین الاقوامی ملازمتوں کے حصول کے لئے ضروری ہوتے ہیں خواہ وہ فری لانس کی صورت میں ہوں یا پھر بیرون ملک ملازمت کی صورت میں۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد