مہنگائی ، مزید مہنگائی اور مہنگائی

میری طرح میرے تمام کے تمام قارعین آج کل گرمی کے ساتھ ساتھ مہنگائی سے بھی سخت تنگ ہیں ہم عوام کو تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ مہنگائی کا رونا روئیں تو کس سے روئیں۔ حکمرانوں کو تو جیسے اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے جتن کرنے سے ہی فرصت نہیںیا پھر ایک دوسرے کو نیچادکھانے کے لئے کسی بھی حربے سے باز نہیںآرہے۔ عدالتیں کام کررہی ہیں اور وہ بھی روز روز ضمانتیں دے دے کر اتنے مصروف ہیں کہ انہیں غریب عوام کے لئے فرصت نہیں مل رہی۔ لے دے کر عوام کا زور چلتاہے تو ہم جیسے غریب صحافیوں پر لہٰذا وہ اپنی آواز ہم تک جیسے تیسے کرکے پہنچارہے ہیں۔ عوام یہ تو جانتے ہیں کہ ہمارے کالم ارباب اختیار تک پہنچ رہے ہیں اور وہ ان سے نالاں بھی ہیں اس لئے مجھے بھی آئے روز عرضیاں آتی رہتی ہیں کچھ کو ہم پڑھ کر اور محسوس کرکے بند کردیتے ہیں لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر لکھنا ضروری ہوجاتاہے۔ کیونکہ ہمارے چند قارئین تو یہ سمجھتے ہیں کہ بس ہم نے کالم لکھا نہیں اور اربابِ اختیار نے عمل کیا نہیں کیونکہ ان کے مطابق حکمران تو بس اس کے لئے ہی تیار بیٹھے ہوئے ہیں وہ یکدم اس پر عمل درآمد کرنا شروع کردیں گے۔ اس طرح کے منصوبوں کے لئے تو گویا وہ انتظار ہی کررہے ہوتے ہیں۔ فنڈز کی کمی بھی ان کے آڑے نہیں آتی اور نہ ہی منصوبوں کی منظوری کے جھنجٹ سے ہی انہیں گزرنا پڑے گا۔ لہٰذا وہ مجھے گاہے بگاہے متعدد لوگ ایک ہی قسم کے موضوعات پر کالم لکھنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں ان قارئین میں کوئی راہ چلتے مل جاتاہے تو کوئی برقی خطوط سے ان موضوعات پر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ یہ موضوعات ہمارے ذہن میں نہیں آتے لیکن میں یہ سمجھتاہوں کہ لکھ لینے کے باوجود اس پر عمل درآمد تو ہونا نہیں بلکہ لگتا تو یہ ہے کہ حکومتی اہلکار ، ارباب اختیار ہمارے کالم پر نظر تک نہیں ڈالتے ۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ روزنامہ مشرق ہمارے صوبہ کے تمام اہم سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں منگوایا اورپڑھا جاتاہے یا پھریہ کہا جائے کہ یہ سٹیٹس سیمبل کے طور پر ہر بڑے افسر کی میز پر پڑا ملتاہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہر چھوٹی بڑی خبر کے ساتھ ساتھ ادارتی صفحہ بھی روزانہ پڑھتے ہیں اس پر عمل درآمد کریں یا نہ کریں لیکن ہمارے کوئی کوشش رائیگاں نہیں جاتی ۔
اب قارئین کی کسی بات کو ٹالا تو نہیں جاسکتالہٰذا ان کے بتائے ہوئے موضوع ” مہنگائی ” پر کالم حاضر ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے مہنگائی گویا بے لگام ہوچکی ہے اس دوران حکومت بھی بدل گئی لیکن مہنگائی کو کوئی لگام نہ لگی بلکہ مزید زیادہ ہوتی چلی جارہی ہے میں یہ مانتاہوں کہ ساری مہنگائی حکومت کی طرف سے لگائے گئے ٹیکسوں کی وجہ سے نہیں ہے ، یہ بہانہ بھی ہر جگہ درست نہیں بیٹھتا کہ پیٹرول اور بجلی کے مہنگے ہونے سے سبزی اور پھل منڈی سے بازار تک لانے میں ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھنے سے روزمرہ اشیاء کے نرخوں پر بھی بہت اثر پڑتاہے ۔ مہنگائی کا ایک خاص بلکہ بڑاتناسب مصنوعی مہنگائی کا ہے اورعاقبت نااندیش عناصر اپنی طرف سے ہوشربا اضافہ لگاکر اور اس کا الزام حکومت پر لگاکر خوب مزے کررہے ہیں۔ حکومتی ادارے گاہے بگاہے ان پر چھاپے مارتے رہتے ہیں تاہم ان کاروباری لوگوں کا ایک بہت بڑا اور منظم نیٹ ورک ہے وہ اتنی مہنگائی کرچکے ہیں کہ حکومت کے ادارے اگر ان پر نام نہاد جرمانہ عائد بھی کردیں اور یہ دکاندار وکاروباری حضرات یہ چند ہزار یا زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک کا جرمانے جلد از جلد اداکرکے عوام کو پھر سے لوٹنا شروع کردیتے ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوںکمشنر کی طرف سے پشاور کے مختلف علاقوں میں اسسٹنٹ کمشنرز نے نان بائیوں پر چھاپے مارے اور بیشتر نان بائیوں کو کم وزن میں روٹی فروخت کرتے ہوئے بھاری جرمانے لگائے کئی کے تندور سیل بھی کئے گئے لیکن چند گھنٹے گزرنے کے بعد ہی ہم نے دیکھا کہ پھر سے وہی تندور کھل چکے ہیں اور پھر سے کم وزن والی روٹی مہنگی کرکے بیچ رہے ہیں۔ ان کاروباری لوگوں کو تاجران کی تنظیموں کی آشیر باد بھی حاصل ہے اور ان کے اپنے تعلقات بھی اتنے لمبے ہیں کہ انہیں زیادہ دیر تک بند نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ کاروباری حضرات پہلے سے ہی ناجائز منافع اتنا لے رہے ہوتے ہیں کہ اگر کسی قسم کا چھاپہ پڑا اور جرمانے کے ساتھ ساتھ رشوت بھی دینی پڑی تو انہیں بھاری نہ پڑے اور چند گھنٹوں کی کاروبار کی بندش ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتی اورغریب اور ضرورت مند عوام کو ان ہی کے تندوریا دکان پر جانا پڑتاہے اور پھر یہ سلسلہ برسوں سے چلتا آرہاہے اور لگتایہ ہے کہ چلتاہی رہے گا۔ چاہئے تو یہ کہ اس طرح کے چھاپے تسلسل کے ساتھ جاری رہیں ہر ماہ نہیں تو ہر تین ماہ میں یہ چھاپہ ضروری ہے ۔ ایک بار’ دو بار تک تو جرمانہ ہوگا اور اگر تیسری بار بھی اسی دکاندار، کاروباری یانان بائی پر جرمانہ ہوتا تو اس کے کاروبار کو مکمل طور پر بند کردیاجانا چاہئے اور اگر پھر سے دکان یا کاروبار اس علاقہ میں دوبارہ کھولے تو اسے قید وبند کی سزا بھی ملنے چاہئے۔ ملک عزیز کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قانون تو ہے اس پر عملدرآمد پوری طرح نہیں ہوتاقانون جتنا سخت ہوتاہے اتنی ہی زیادہ رشوت خوری بڑھ جاتی ہے اور مہنگائی کرنے والے ہر ادارے کا حصہ رکھتے ہیں اس سب کا بوجھ عوام پر پڑتاہی جاتاہے ۔ کرپشن کی ایک لمبی کہانی ہے نزدیک ترین مثال مفت آٹا سکیم میں ہونے والے بائیس ارب روپے سے زائد کی کرپشن کی ہے یہ کرپشن کوئی پہلا یا اپنی نوعیت کا اکلوتا واقعہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرہ کرپشن کی کہانیوں سے بھراپڑا ہے ۔ ملک عزیز میں جو کوئی بھی اقتدار میں آتاہے اس تو گویا لاٹری نکل آتی ہے اور وہ اپنے حصہ کی کرپشن کرنا اپنا فرض ِ اولین سمجھتاہے اور اس کے بعد آنے والے جھوٹے موٹے مقدمات بنا کر اصل کرپشن کو بھی چھپا دیتے ہیں اور کرپشن کرنے والے عناصر چاہے وہ سیاسی رہنماء ہوں یا ان کے کارندے بڑے آرام سے ان مقدمات سے باعزت بری ہوجاتے ہیں اور عوام پھر کرپشن کرپشن کا راگ الاپتے ہوئے نئے آنے والوں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں۔
ابھی ماضی قریب میں گزرنے والے ایک نہیں بلکہ دو حکومتوں نے مہنگائی کی وہ لہر چلائی کہ اس سے عوام کا جینا دوبھر ہوچکاہے کھانے پینے کی اشیاء تو مہنگی ہوئی تو ہوئیں ادویات تک میں دس سے چودہ فیصد مہنگائی ہوچکی ہے ۔ عوام پر مہنگائی کا بوجھ بھی بڑھتا جارہاہے اوراوپر سے قرضے بھی دن دگنی اور رات چگنی بڑھتے جارہے ہیں پاکستان کا گردشی قرضہ 2536ارب روپے سے تجاوز کرچکاہے ۔ عالمی مالیاتی ادارہ (ائی ایم ایف) اپنی ساری شرائط منواکر بھی قرض دینے کے لئے ابھی تک راضی نہیں ہوا۔ گزشتہ نو ماہ میں کے دوران تجارتی خسارہ بائیس ارب نوے کروڑروپے ہے۔ مہنگائی میں ان چند ماہ میں 48فیصدسے زائد کا اضافہ ہواہے ۔ اس سال ہمارے پیارے ملک کی معاشی شرح نمو انتہائی کم رہی جس کی وجہ سے مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان کی عوام اب بھی پوری محنت کرنے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گی صرف حکومت اور سرکاری اداروں نے بہترین منصوبے دینے ہیں اور یہ ملک پھر سے اپنے پیروں پہ کھڑا ہوجائے گا۔ ملک خداداد پاکستان میں جہاں گنے چنے کرپٹ اور چور لوگ ہیں تو وہاں پر اکثریت محنتی اور ایماندار لوگوں کی ہے ضرورت ہے تو صرف ایماندار حکومت کی۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے