4 295

میانمار (برما) کا فوجی انقلاب اور روہنگیا مسلمان

میانمار جو کبھی برما کہلاتا تھا، جنوب مشرقی ایشیاء کا ایک بڑا اور اہم ملک ہے چھ لاکھ چھہترہزار مربع کلومیٹر کے رقبہ کیساتھ تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہے۔ برما کی حدود بہت وسیع، لمبی اور چین، بھارت، بنگلہ دیش، لائوس، تھائی لینڈ کیساتھ لگتی ہیں۔ 1937ء تک یہ بھارت کا حصہ تھا اور پھر انڈیا سے الگ ہو گیا، یہاں بھی برطانیہ کی حکومت تھی۔ اگست 1947ء میں بھارت اورپاکستان کی برطانیہ سے آزادی کے بعد 4جنوری1948 ء کو برما نے بھی آزادی حاصل کر لی۔ یہاں1824ء سے 1948ء تک انگریز بہادر کی حکومت رہی۔ یہاں بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کی طرح اس کے ابتدائی حکمرانوں اور کابینہ کے افراد کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا جس سے ابتداء ہی سے یہاں مستحکم جمہوری حکومتیں قائم نہ ہو سکیں اورزیادہ تر فوجی راج رہا۔ برما کیساتھ اگرچہ پاکستان کے ملٹری ٹو ملٹری تعلقات بہت اچھے ہیں اور چونکہ چین اوربرما کے درمیان بہت قریبی تعلقات ہیں کیونکہ چین ہمیشہ برما کی فوجی حکومتوں کو مدد وتعاون دیتا رہا ہے اور یورپ وامریکہ کی پابندیوں سے بچتا رہا ہے،اسی سبب پاکستان کیساتھ بھی اس کے تعلقات اچھے ہیں۔ 1971ء میں پاکستان کے بہت سے اہم فوجی وسول افسران بنگلہ دیش سے برما منتقل ہوئے تھے اور بھارت کی قید سے محفوظ رہے تھے۔ پاکستانیوں کا برما کیساتھ ایک اہم یادگاری واقعہ ہندوستان کے آخری مسلمان بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے حوالے سے تاریخ میں محفوظ ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے نتیجے میں بہادرشاہ ظفر برطانیہ کی حراست میں آئے تو اُس پر مقدمہ چلا کر میانمار (رنگون) اور اب پنگون جلاوطن کیا گیا۔ جہاں وہ اپنی موت(1862)تک رہے۔رنگون کے وسیع شہر میں کیپٹن نیلسن ڈیوس جووہاں کا انچارج تھا،بہادرشاہ ظفر کی رہائش کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو اس نے اپنے گھر کے گیراج کو خالی کروا کر تیموری لہو کے آخری چشم وچراغ کو قید کرلیا۔
پچھلے دنوں میانمار میں فوجی انقلاب آیا تو مجھے بہادر شاہ ظفر کی یاد کیساتھ روہنگیا مسلمان بھی بُری طرح یاد آئے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی باتوں نے ذہن وفکر میں بے چینی پیدا کی، برما بنیادی طور پر بدھوں کا ملک ہے اور بدمت کے حوالے سے مشہور یہی ہے کہ اس مذہب کے پیروکار بہت پرامن ہوتے ہیں، ان کے بھکشو اور دلائی اور مذہبی پیروکار اکثر اپنی عبادت گاہوں اور علاقوں میں ننگے پائوں پھرتے ہیں تاکہ کہیں ان کے پائوں کے نیچے حشرات مسل نہ جائیں۔لیکن برما کے ان بدھوں نے اپنی مذہبی رہنمائوں کی قیادت میں چند سال قبل روہنگیا مسلمانوں کیساتھ جو ظلم وستم روا رکھا گیا اور جس طرح اُن کی نسل کشی کی کوششیں کیں، بیسویں اور اکیسویں صدی میں شاید ہی کسی اور قوم کیساتھ ایسا ظلم ہوا ہو۔ مظلوم فلسطینی اور کشمیری بھی ہیں لیکن روہنگیا کو جس طرح اپنے آبائی علاقے خلیج بنگال کے سواحلی پٹیوں پر مشتمل صوبہ اراکان سے ان کی بستیاں جلا کر بنگلہ دیش کی طرف کمزور اور ٹوٹی پھوٹی کشتیوںمیں دھکیلا گیا۔ آج کی دنیا میں شاید ہی تاریخ نے اور کہیں ایسا ظلم دیکھا ہو۔
اُمت مسلمہ کی بے حسی کا اندازہ لگائیں کہ بنگلہ دیش میں اسلامی اُخوت نام کی حکومتی سطح پر کوئی چیز ان بے چاروں کیلئے موجود نہیں، یہ مظلوم ومجبور قوم پناہ گزین کیمپوں اور کھلے آسمان تلے کشتیوں میں کبھی ایک جزیرہ اور کبھی دوسرے جزیرے بے سروسامان پھرتے ہیں لیکن مجال ہے کہ او آئی سی، پاکستان، امیر خلیجی عرب ممالک یا انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سلامتی کونسل وغیرہ کے کانوں پرجوں تک رینگتی ہو۔روہنگیا کیخلاف پہلے بھی نسلی فسادات برما کی آرمی کی پناہ اورآشیرواد سے ہوئی تھیں اور جوبے چارے اراکان میں اس وقت مظلومانہ زندگی گزار رہے ہیں اُن کیلئے جو انسانیت سوز قوانین بنائے گئے ہیں اُس پر اس وقت اقتدار سے محروم کی گئی، آنگ سوچی بھی خاموش تھی حالانکہ یہ محترمہ امن نوبل لاریٹ ہیں اور نوبل انعام وصول کرتے وقت انہوں نے امن اور بے گھر لوگوں اور غربت کے خاتمے کیلئے بڑے بلند الفاظ کہے تھے لیکن جب اقتدار میں آئی تو اپنے ملک کے مظلوموں کیساتھ ظلم پر خاموش رہ گئی۔ ایسی خاموشی کے سبب ”فریڈم آف آکسفورڈ ایوارڈ، ان سے واپس لے لیا گیا تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے ان مظلوموں کی آہ وفریاد کے سبب شاید ان کو اقتدار سے بھی محروم کردیا لیکن اس وقت دوبارہ خطرہ یہ ہے جس کا ذکر یو این نے کیا ہے کہ برما میں مارشل لاء کی حکومت میں روہنگیا مسلمانوں کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ او آئی سی اور بالخصوص ترکی اور پاکستان، چین کی وساطت سے برما کی مارشلائی حکومت سے اس حوالے سے بات کریں کہ ان مظلوموں کی تکالیف میں مزید مصائب کا اضافہ نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات