میری باتوں میں اب مٹھاس کہاں؟

ایک پشتو کہاوت ہے ”گڑہ گڑہ کوہ ‘ خولہ بہ دے خوگیگی” یعنی گڑ گڑ کرتے رہو منہ میٹھا ہوتا رہے گا’ گزشتہ روز خبر آئی تھی کہ 90دن میں چینی سو روپے کلو مہنگی ہوگئی ‘ اس ضمن میں وجہ جواز یہ بتایا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور افغانستان سمگلنگ کے باعث قیمت 180 روپے کلو ہوگئی ‘ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ”حساب کتاب” رکھنے والوں نے اس کیفیت کو انگریزی زبان کے ”رائونڈ فگر” کے کلئے پر پورا نہ اترتے ہوئے دیکھ کر مزید بیس روپے کلو کے اضافے کے ساتھ اسے 200 روپے کرتے ہوئے ”رائونڈ فگر” کو پذیرائی دینے کا فیصلہ کیا یعنی اب چینی پورے دو سو روپے کلو کے حساب سے فروخت ہونا شروع ہو گئی ہے ‘ ہمارے خیال میں اب وہ لوگ جن کو ذیابیطس کی بیماری لاحق ہے یعنی شوگر کے مریض ہیں وہ خود کو بہت ”خوش قسمت” خیال کرتے ہوں گے کہ شکر ہے چینی کی اس مہنگائی کا ان پرکوئی اثر نہیں پڑے گا ‘ اس حوالے سے اگرچہ ایک میمن خاندان سے تعلق رکھنے والے کے بارے میں شوگر ٹیسٹ کرانے کے دوران لیبارٹری والوں کواپنے یورین کی بوتل کابقیہ حصہ واپس مانگنے کے ضمن میں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے مگر اسے Bad Taste(یعنی ناقابل برداشت) سمجھتے ہوئے اس سے درگزر کرنے کی مجبوری آن پڑی ہے البتہ اکبرسرحد مرزا محمود سرحدی نے آج سے تقریباً چھ دہائیاں یا اس سے بھی زیادہ عرصہ پہلے (غالباً 60ء کی دہائی میں) جب اسی طرح چینی مہنگی ہوگئی تھی ‘ ایک شعر کہا تھا کہ
جانتے ہو کہ چینی مہنگی ہے
میری باتوں میں اب مٹھاس کہاں
سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اگرچہ اس صورتحال پر جو تبصرہ کیا ہے اس سے ہمیں ملانصیر الدین ضروریاد آگئے ہیں ‘ اسحاق ڈار نے چینی مہنگی ہونے کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں چینی وافر مقدار میں موجود ہے چینی کا مہنگا ہونا بے ایمان کاروباری طریقوں اور ناقص گورننس کا نتیجہ ہے ‘ ملک میں 23لاکھ میٹرک ٹن چینی موجود ہے جبکہ نیا کرشنگ سیزن سولہ نومبر سے شروع ہوگا جس کے آغاز میں دس لاکھ ٹن میٹرک ٹن چینی اورمل جائے گی ۔ سابق وزیر خزانہ کے بیان میں اہم نکتہ ملک میں 23 لاکھ ٹن چینی کا موجود ہونا ہے جس پر ملانصیر الدین کے ایک ”ڈائیلاگ” کا اطلاق یوں کیا جا سکتا ہے کہ ”پرسانوں کی؟” ملا نصیر الدین ایک روز اپنی گلی میں بیٹھا تھا ‘ ایک نوجوان لڑکا بھی ان کے پاس کھڑا بات چیت میں مشغول تھا اتنے میں دور سے ایک شخص اپنے گھر سے خوان میں کچھ اٹھائے آتا دکھائی دیا تو جوان نے ملا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘ ملا جی دیکھئے جو شخص ہماری جانب خوان اٹھائے آرہا ہے ‘ اس خوان میں سے کتنی خوشبوئیں اٹھ رہی ہیں ‘ ملا نصیر الدین نے کہا ‘ پر مجھے کیا؟ اتنی دیرمیں وہ شخص خوان اٹھائے ملاجی کے گھر پر دستک دینے لگا تو اس نوجوان نے کہا ‘ ملاجی ‘ وہ خوان توآپ کے گھر جارہا ہے اس پرملا جی نے ترنت جواب دیا ‘ پھرتجھے کیا؟ اور یہ کہہ کراپنے گھر کی طرف چل دیئے ۔
ہوش و حواس وتاب وتواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں ‘ سامان توگیا
اسحاق ڈار نے جس صورتحال کی نشاندہی کی ہے اس کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ جب تک متعلقہ ذمہ دار حلقے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے عوام کے دکھ درد کے بارے میں نہیں سوچیں گے ‘ تب تک مہنگائی کا یہ سلسلہ رکے گا نہ تھمنے میں آئے گا’ نئے کرشنگ سیزن کا بھی عوام کو کیا فائدہ مل سکتا ہے ‘ اس لئے کہ شوگر ملز مافیا نے چند برس سے جو رویہ گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے ‘ اس کے سارے فوائد ملز مافیا اور ان کے ساتھ ان طبقات کو مل رہا ہے جوکارٹل بنا کر ”ملی بھگت” سے پہلے ملک سے بمپر کراپ کے نام پر ”فاضل”چینی برآمد کر دیتے ہیں ‘ پھر چینی کی قلت کے نام پر واپس درآمد کرنے کے پرمٹ حاصل کرکے ملک کے اندر چینی مہنگی کردیتے ہیں اور یوں پہلے برآمد اور پھردرآمد سے کروڑوں روپوں سے جیبیں نہیں بوریاں بھر لیتے ہیں ‘ جبکہ ملز مالکان چینی کی برآمد پر سبسڈی حاصل کرنے سے الگ سے تجوریاں بھر لیتے ہیں اور کاشتکاروں سے گنا خریدنے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے ان کے گنوں سے بھرے ٹرک خالی کرنے میں انتظار کی سولی پر لٹکا کر ان پر ٹرکوں کا کرایہ چڑھا کرسستے داموں گنا بیچنے پر کاشتکاروں کو مجبور کرتے ہیں ‘ جبکہ ادائیگیوں میں بھی تاخیری حربے استعمال کرکے ان بے چاروں کی ”بربادی” کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ رہ گئے کاشتکار اور عوام تو ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے جبکہ تمام ”فوائد” سب شوگر مافیا سمیٹ کر نہال ہوجاتا ہے یعنی بقول مرحوم مقبول عامر
پھر وہی ہم ہیں وہی تیشہ رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو پرویز کے کام آئی ہے
رہ گیا گڑ جوگنے کے اکثر کاشتکار دیسی طریقے سے اپنے اگائے گئے گنوں کو گھانی میں پراسس کرکے بناتے ہیں ‘ اب وہ بھی اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ دور سے دیکھ دیکھ کر ہی بندہ حسرت زدہ ہوجاتا ہے ‘ ایک کرم فرما ماضی قریب میں مختلف سیزنوں کے دوران سال میں ایک مرتبہ شفتالو اور گنے کے سیزن میں مسالے دار گڑ سے تواضع کر لیا کرتے تھے ‘ ایسے کئی جی دار لوگ ہیں جو اکثردوستوں کوسوغات بھیجتے ہیں ‘ جیسا کہ آم کے سیزن میں پنجاب کے ان علاقوں کے آم اگانے والے کاشتکاروں اور زمینداروں کے بارے میں خبریں سامنے آتی ہیں کہ انہوں نے ملکی اور غیر ملکی شخصیات کو آموں کی پیٹیاں ارسال کردی ہیں ‘ اسی طرح ہمارے ہاں بھی نہ صرف سیب ‘ ناشپاتی ‘ آڑو وغیرہ بلکہ گڑ(سادہ اور مسالے دار) سے کچھ لوگ دوستوں بہی خواہوں کونوازتے ہیں بلکہ گڑ بنانے کے دوران وہ جوائی پراڈگٹ ہوتا ہے اورجسے پشتو میں کک اور ہندکو زبان میں ککیوں کہتے ہیں ‘ یعنی گاڑھا شربت’ وہ بھی تحفے کے طور پر تقسیم کیا جاتا ہے ‘ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں اس گڑ کے شربت کے ساتھ نہ صرف لوگ روٹی کھاتے ہیں بلکہ اس کی میٹھی روٹیاں بھی بنائی جاتی ہیں’ مگراب نہ مسالے دار گڑ کہیں سے آتا ہے نہ چینی سستی ہو رہی ہے ‘ اوپر سے پٹرول کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ پورے ملک کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر رہا ہے اور ہمیں کسی شاعر کا یہ شعریاد کر آرہا ہے کہ
ملے اک بار بچوں یا پرندوں کو حکومت
کوئی ایسا طریقہ ‘ شہر ہوں خوشحال سارے
٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات