syed shakil ahmad 26

میلہ سج گیا

الیکشن کمیشن پاکستان نے سینٹ کے انتخابات کا شیڈول جا ری کر دیا ہے ، جیسا کہ پی ٹی آئی کی حکو مت میں ہو رہا ہے کہ چاہے کوئی بھی ادارہ ہو اس کے اقداما ت پر یا تو سوال اٹھ جا تے ہیں یا پھر اعتراضات کی بو چھاڑ ہو جاتی ہے جیسا کہ جسٹس عظمت سعید شیخ کی براڈ شیٹ کے معاملا ت کی تحقیق کے لیے تقرری ہے ، عظمت سعید کے بارے میں دو اعتراض اٹھے ایک یہ کہ جب براڈ شیٹ سے کا م لینے کا فیصلہ ہو اتب اس سے معاہد ہ کا مسودہ تیا ر کرنے میں ان کا بھی ہا تھ تھا ، اصل واقعہ یہ ہے کہ نیب نے پرویز مشرف کے دور میں غیر ممالک میں پاکستانیو ں کے خفیہ اثاثہ جا ت کا کھو ج لگانے کا معاہد ہ کرنے کی غرض سے جو مسودہ تیا ر کیا وہ اس وقت کے نیب کے پراسیکوٹر جنرل فاروق آدم خان کے حوالے سے ہو ا کیوں کہ اس معاہد ے پر انہیں کے دستخط ہیں تاہم اس وقت عظمت سعید شیخ ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل تھے چنا نچہ گما ن یہ ہی کیا گیا کہ اس کی تیاری میں وہ بھی ایک آفس ہولڈ ر کی حیثیت سے پیش پیش رہے ہو ں گے دوسرا اعتراض یہ اٹھا کہ مو صوف وزیر اعظم عمر ان خان کے کینسر اسپتال شوکت خانم کی گورنگ باڈی کے ممبر ہیں اس لحاظ وہ انکو ائری کمیٹی کے سربراہ نہیں بن سکتے، چنا ں چہ اسی طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے سینٹ کے الیکشن کا جو شیڈول دیا گیا ہے اس پر بھی اعتراض ہو نا شروع ہو گئے ہیں ویسے کسی حد تک بات تو درست کہی جا سکتی ہے کہ اتنا عجلت انگیز شیڈول کیو ں کر دے دیا گیا۔ہو ا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کا جو شیڈول جا ری کیا ہے یعنی کہ گیارہ فروری کو شیڈول کا اعلا ن جاری ہو تا ہے جس میں کہا جا تا ہے کہ بارہ اور تیرہ فروری تک کا غذات نا مزدگی جمع کر ادئیے جا ئیں حالا ں کہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ سیا سی جما عتوں کے لیے سب سے بڑا درد سر امید واروں کا چنا ؤ ہو تا ہے کیوں کہ یہ وہ وقت ہے جب پا رٹی کی اندرونی سیا ست میں دراڑیں مزید گہر ی ہو جا یا کرتی ہیں گروپ بندیا ں عیاں ہو جا تی ہیں اور تو اور پارٹی میں انتشار کا سما ں بھی پید اہو جایا کرتا ہے۔ بھلا کوئی بتائے کہ جب دو دن میں کا غذت نا مزدگی داخل کر نے ہو ں تو امید وار کا فیصلہ کیسے ہو گا اگر یہ کہہ دیا جا ئے کہ پا رٹی کے خواہش مند امید وار فی الحال کا غذات نا مزدگی جمع کر ادیں اور کا غذات نا مزدگی واپس لینے کی تاریخ کے مو قع پر پا رٹی کی طر ف سے کسی امید وار کو کہا جا ئے کہ وہ اپنے کا غذ ات نامزدگی لو ٹا لے تو پھر ایسے امید وار کے چہر ے کا منظر کیا ہو گا یہ الیکشن کمیشن دفتر ہی بتا سکتا ہے ۔ سینٹ کو اردو زبان میں ایو ان بالا کہا جا تا ہے حالا ں کہ یہ ترکیب فارسی زبان کی ہے ، آج تک عوام یہ نہ جا ن سکے کہ ایو ان بالا کو کیا بالا دستی حاصل ہے جو یہ صفاتی نا م بخشا گیا ہے ، تاہم اتنا یا د ہے کہ مطلق العنا ن مزاج سیا ست دان مر حوم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو باقاعدہ ایک آئینی سر زمین کی تشکیل کیلئے جو کر دار اد کیا وہ پا کستان کی سنہری تا ریخ کا عظیم باب ہے ان کے مخالف سیا ست دان مرحوم کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ چچڑا سیا ست دان ہے مزاج کے خلا ف کو ئی بات پسند نہیں کر تا مگر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سیا ست اپنی جگہ جہا ں قومی یکجہتی اور ملکی مفاد کا معاملہ پڑ ا تو انہوں نے ایک منجھے ہوئے سیا ست دان کا کر دار ادا کیا اور ہمیشہ مدبر انہ کردار ادا کیا جب وہ سقوط ڈھا کا کے بعد بھارت با ت چیت کے لیے جا رہے تھے اس وقت انہو ں نے باقاعدہ پا رلیمنٹ سے اعتما د حاصل کیا یک طرف طور پر قدم نہیں بڑھا یا ، اسی طر ح آئین کی تشکیل کے مو قع پر بھی ہم آہنگی کا دامن نہ چھو ڑ ا بلکہ پا رلیمنٹ میں مو جو د ہر سیا سی جما عت کی آراء لی اور ان کو آئین کا حصہ بنا یا بھی مثال کے طور پر علماء کے بائیس نکا ت کو آئین کی بنیا د بنایا جب کہ ان کے یہ ہی سیا سی مخالفین مر حوم کو سوشلسٹ ہو نے کا طعنہ دیا کرتے تھے ایسی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہر جما عت کی آراء جا ننے کے لیے انہوںبعض عناصر کا یہ کام لگا یا کہ پا رٹیا ں کیا چاہتی ہیں چنانچہ اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکڑ مبشر حسن کو ذمہ داری دی گئی کہ ولی خان سے آئین کے بارے میں رائے لیں چنا ں چہ بھٹو مر حوم کی ایما ء پرجب ڈاکڑ صاحب نے استفسار کیا تو ولی خان نے بجلی کے منافع کی بات کی چنا ں چہ یہ بات کسی عذر کے تسلیم کر لی گئی بلو چستان میں بھی اے این پی کی حکومت تھی انہو ں نے گیس کی رائلٹی کا مطالبہ کیا وہ بھی ما ن لیا گیا ، اسی طر ح جب آئین کی تشکیل کے فوری بعد سینٹ کی تشکیل کے لیے انتخابات کا مر حلہ آیا تو اس وقت آج کی طرح کئی پا رٹیوں نے اس کی اہمیت کو نہ جا نچا واحد نیشنل پا رٹی تھی جس نے ایسے افر ا د کو نا مزد کیا جو حقیقی معنوں میں وفا ق کے اتحاد کی علا مت کے طور سینٹ میں کر دار ادا کر سکتے تھے ۔این اے پی کے نامزد نمائند وں میں افراد نہ صرف تعلیم یا فتہ تھے بلکہ اپنے اپنے شعبوں کے ما ہر بھی تھے کسی کو سیا سی چاپلوسی کی بنیا د پر ٹکٹ سے نہیں نو ا زا ان میں بیر سٹر ظہو ر الحق بھی شامل تھے جو آئین اور قانو ن کی مہا رت میں یکتا تھے اب کیا ہو گا الیکشن کمیشن کے شیڈول سے تو یہ ہی اندازہ ہورہا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کی بجائے جو تیو ں میں دال بٹے گی ، قوم اب ولی خان جیسے مدبر ، ذہین وفطین رہنما ء کہا ں سے لائے اب تو سب سیا ست کی نذر نہیں ہو رہا بلکہ قوتوں کے کنائیے ابر و پر قربان کیا جارہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات