ناتجربہ کاروں سے تجربہ کاروں تک

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی مہنگائی کے نئے سیلابِ بلا نے لوگوں کے اوسان خطا کردیئے ہیں۔ آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن کی چکی میں پستے شہری کس کے دروازے پر فریاد لے کر جائیں۔ کیا ارباب اختیار اپنے لوگوں کی دم توڑ چکی قوت خرید سے لاعلم ہیں؟ بدقسمتی کہہ لیجئے کہ ہمارے پالیسی سازوں نے داخلی و خارجی پالیسیوں اور دیگر معاملات میں کبھی بھی شہریوں اور مملکت کے مفادات اور مستقبل کی ضرورتوں کو پیش نظر نہیں رکھا۔ پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے سابق حکومت کے خلاف اپنی احتجاجی تحریکوں اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتے وقت عوام کو مہنگائی، بیروزگاری اور دوسرے مسائل سے نجات دلوانے کے جو خواب دیکھائے تھے وہ چکنا چور ہی نہیں ہوئے بلکہ ان مسائل کی سنگینی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ مہنگائی کی موجودہ شرح پچھلی نصف صدی کے مقابلہ میں سب سے زیاہ ہے۔ گزشتہ روز ہی ایل پی جی کی فی کلو قیمت میں 60روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر مملکت مصدق ملک کہتے ہیں کہ وزیر خزانہ اسحق ڈار آئی ایم ایف سے ایسی شرائط چاہتے تھے جس سے عام آدمی پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ اس سادگی پر یہی کہا جاسکتاہے کہ مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ فی الوقت صورت یہ ہے کہ مہنگائی کے تازہ سیلاب کے باعث گھی اور کوکنگ آئل کی فی کلو قیمت میں60روپے کا اضافہ کے ساتھ چائے کی پتی فی کلو 1800روپے، باسمتی چاول 380 روپے، دال چنا290روپے، سفید چنے 360روپے کلو، ایک درجن انڈے300سے 320روپے، ڈبے والے دودھ کی قیمت 230 روپے کلو ہوگئی ہے۔ اسی طرح مختلف اقسام کی دالوں، سرف، دہی، سرخ مرچ کے علاوہ بیکری میں بننے والی اشیا کی قیمتیں بھی راتوں رات بڑھ
گئیں۔ روزمرہ ضرورت کی ان اشیا کے ساتھ متعدد دوسری چیزوں کی مصنوعی قلت بھی ایک مسئلہ ہے۔ حالت یہ ہے کہ 20کلو آٹے کا تھیلا بلیک میں22 سے24سو روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی امدادی قیمتوں والا آٹا بھی متعلقہ مقامات کی بجائے بلیک میں مل رہا ہے اسی طرح سبزیوں کی قیمت میں صرف دو دن کے دوران10سے25روپے کلو تک اضافہ ہوا۔ ہفتہ بھر قبل پیاز 240 روپے کلو تھا اب265روپے کلو ہے۔ یہ کہنا کہ آئی ایم ایف سے ایسی شرائط چاہتے تھے جس سے عام آدمی کم سے کم متاثر ہو، لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہی ہے۔ وزیر خزانہ اور ان کے رفقا اس زمینی حقیقت سے لاعلم ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے سے پیدا شدہ صورتحال سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 25روپے لیٹر کے اضافے نے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی اس صورتحال سے ایک عام محنت کش بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ہمارے ہاں کسی بھی شعبہ کی پالیسی بناتے وقت وقتی مفادات کو ہی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ وضع کردہ پالیسیوں کے منفی نتائج کی ذمہ داری کوئی بھی قبول نہیں کرتا۔ پچھلی صدی کی نویں دہائی میں جب سی این جی سٹیشن لگائے جارے تھے تو کسی نے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ سی این جی سٹیشنوں کی بھرمار کا جو نتیجہ نکلا اسے آج ایک عام صارف بھگت رہا ہے۔ افسوس کہ اب پالیسی ساز یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی سی این جی گھریلو صارفین کو فراہم نہیں کی جاتی بلکہ ایل پی جی سلنڈروں کا رواج ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں کہاں سی این جی نجی گاڑیوں کو فراہم کی جاتی ہے؟ سوئی گیس کے ڈیڑھ سو برس ذخائر لگ بھگ 20 برسوں میں پھونک دینے کو قانونی حیثیت دلوانے والوں اور کاروباری طبقے نے تو تجوریاں بھرلیں عام آدمی کی جو درگت بنی اس پر کسی کو ملال نہیں۔ ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ کھاد فیکٹریوں کو ارزاں نرخوں پر سوئی گیس فراہم کی گئی لیکن کھادوں کی قیمتوں پر کنٹرول رکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج فی ایکڑ پیداوار کے اخراجات آسمان کو چھورہے ہیں۔ گندم، چاول اور کپاس کی پیداوار کے اہداف پچھلے کتنے برسوں سے حاصل نہیں ہوپائے۔ اس سوال سے ہمارے پالیسی ساز آنکھیں چراتے ہیں۔ ایک زرعی معیشت والا ملک پچھلے دس برسوں سے 8 سے 9 ارب ڈالر کی کاٹن ہرسال بیرون ملک سے منگوانے پر مجبور ہے اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ زرعی معیشت والے ملک کی زراعت کی ترقی کے لئے گزشتہ 40برسوں میں کیا حکمت عملی وضع کی گئی؟ اس سوال کاجواب پنجاب میں کاٹن ریسرچ کے اداروں کی کارکردگی میں موجود ہے۔ مہنگائی کے حالیہ سیلاب میں موٹرسائیکلوں کی قیمت میں مجموعی طور پر 37ہزار روپے اضافہ ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے فورا بعد ٹرانسپورٹروں نے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے 10فیصد تک بڑھادیئے۔ وفاقی وزیر مملکت عوام کو یہ طفل تسلی دے رے ہیں کہ آئی ایم ایف سے ایسی شرائط چاہتے تھے جن سے عام شہری کم سے کم متاثر ہو۔
ادھر عام شہری کی حالت یہ ہے کہ اس کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کہ اس ابتر صورتحال کی کسی حد تک ذمہ داری تحریک انصاف کی سابق مرکزی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن عوام کو سابق حکومت کی ناتجربہ کاری سے پیدا شدہ حالات سے نجات دلوانے کے لئے اقتدار سنبھالنے والے تجربہ کاروں نے اصلاح احوال کے لئے کیا کیا؟ یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ مہنگائی جس خوفناک رفتار سے بڑھ رہی ہے اس کے آگے بند باندھنے کی ٹھوس حکمت عملی وضع نہ کی گئی تو آنے و الے دنوں میں حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ یقینا اس امر سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھ کر ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں نے بھی اپنی چھریاں تیز کرلی ہیں لیکن ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی سرکوبی صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کا فرض ہے ۔ ہم مکرر اس امر کا تذکرہ ضروری خیال کرتے ہیں کہ حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے
مزید پہلو تہی کی تو عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ اس ضمن میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا ارباب حکومت اس امر سے لاعلم ہیں کہ ملک میں ماہانہ سرکاری و غیرسرکاری اجرتیں مہنگائی کے تناسب سے 50فیصد سے بھی کم ہیں۔ گزشتہ نو دس ماہ کے دوران ملک میں انسانی ضرورت کی ہر چیز مہنگی ہوئی یہاں تک کہ35سو سے42سو روپے میں ملنے والا کفن بھی5سے6ہزار روپے میں دستیاب ہے۔ ان حالات میں عالمی صورتحال اور سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو دوش دیتے رہنے سے مسائل حل ہوں گے نہ لوگوں کا بوجھ کم ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیا جائے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی سے سیاسی مخالفین کا لہو تو گرم رکھا جاسکتا ہے اس سے عام آدمی کو رتی برابر ریلیف بھی حاصل نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات