نام اپنا لکھتا ہوں شکل تیری بنتی ہے

مارابھی عجیب مخمصہ ہے ‘ ایسا لگتا ہے کہ ہماری دور کی نظر تو میڈیکل کی زبان میں سکس بائی سکس (6×6) ہے ‘ مگر قریب کی نظرکمزور ہے اور دھندلاہٹ نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ‘ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جب عقل و خرد کی بات ہوتی ہے ‘ کردار کی عظمت کاتذکرہ ہوتاہے تو ہماری نگاہیں سات سمندر پار تک رسائی حاصل کرکے اہل مغرب کے دانا و بینا لوگوں کی تعلیمات ‘ ان کے کردار اور فلسفے ڈھونڈ ڈھونڈ کر باہر لے آتے ہیں ‘ اپنی گفتگو اور تحریروں میں ان کے حوالے دے کر لوگوں کی توجہ مبذول کراتے ہیں ‘ لیکن نہ تو مشرقی تہذیب کے موتیوں کوچن کر ان سے اپنے خیالات مزین کرتے ہیں ‘ نہ ہی اپنے ہمسائے پر نظر ڈالتے ہیں ‘ اس حوالے سے اپنے بارہ نومبر کے کالم میں ہم نے برصغیر کے دو کرداروں کاتذکرہ کرتے ہوئے ان کی اچھی باتوں کا ذکر کیا تھا ‘ اگرچہ ہمیں یہی فکرلاحق تھی کہ ہمارے ہاں ایک خاص طبقہ جواس قسم کی تحریروں پر ہمہ وقت نظریں جمائے ہوئے ایسی تحریروں میں”مین میخ” نکالنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے بلکہ ایسے تبصروں اور تذکروں کے حوالے سے اپنے منفی خیالات کا اظہار کرنے سے بھی نہیں چوکتے ‘اگر وہ کالم آپ کو یاد ہو تو اس میں جن دو شخصیات کے بارے میں ہم نے اپنے قارئین سے معلومات شیئر کی تھیں وہ دونوں ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت کے اولین وزرائے اعظم یعنی پاکستان کے شہید لیاقت علی خان اور بھارت کے پنڈت جواہر لال نہرو تھے ۔ شہید ملت کے بارے میں تو پاکستان کی تاریخ ان کے لاتعداد کارناموں سے بھری ہوئی ہے جبکہ پنڈت جواہر لال نہرو کے بارے میں جو معلومات ہم نے کالم میں شامل کی تھیں وہ سوشل میڈیا پرموجود ہیں۔ اب ذرا ہمیں واضح کرنے دیجئے کہ جب محولہ کالم ہم نے لکھنا شروع کیاتو تب صرف بھارت کے دو وزرائے اعظم کے حوالے سے لکھ کر ان کے کردار کے مثبت پہلوئوں کو اپنے ہاں سیاسی رہنمائوں کے کردار کے ساتھ موازنہ مقصود تھا لیکن لکھتے لکھتے اچانک خیال گزرا کہ کیا اچھا کردار صرف ہمسایہ ملک کے سیاسی رہنمائوں ہی کا حصہ ہے؟ یا پھر عظمت کردار کے روشن چراغ ہمارے ہاں بھی اجالا کئے ہوئے ہیں ‘ پھر بھارت اور پاکستان کے دو ہم عصر وزرائے اعظم کے تقابلی جائز ے سے ہم نے کالم کو مکمل کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کی کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں’ اگر بھارت میں قوم پرستی کا جادوتقسیم ہند کے بعد چلتا دکھائی دیتا ہے تو پاکستان کے ابتدائی ایام میں بھی ایسے عظیم لوگوں کی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی ‘ یوں دو اولین وزرائے اعظم کے تبصرے سے اپنے قارئین کی معلومات میں اپنی سوچ کے مطابق ہم نے اضافہ کرنے کی کوشش کی(ممکن ہے بعض قارئین ہم سے بھی زیادہ جانتے ہوں) اور اس تحریر کا مقصد صرف یہ تھا کہ مغرب ہی نے کمال شخصیات کو جنم نہیں دیا ‘ برصغیرکی مٹی اور آب و ہوا میں بھی ایسی تاثیر ہے کہ عظمت کردار کی آبیاری کر سکے ۔ بس شرط تلاش کی ہے کہ ایسے کردار ڈھونڈ کر نکالے جائیں۔ ان کا تذکرہ باربار کیاجائے ‘ اور اس مقصد کے لئے روایتی تنگ نظری کو قریب بھی نہ بھٹکنے دیا جائے بلکہ احترام آدمیت کے تقاضوں کو یوں نبھایا جائے کہ بقول غلام محمد قاصر مرحوم
یوں مصوری میں گم ہو رہی ہے خطاطی
نام اپنا لکھتا ہوں ‘ شکل تیری بنتی ہے
محولہ کالم(مطبوعہ 12نومبر) میں بنیادی طور پر جس دوسری شخصیت کا تذکرہ مقصود تھا ان کا تعلق بھی بھارت ہی سے تھا اور وہ بھی سابق وزیر اعظم تھے’ ان کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر جوکہانی درج ہے اسے دیکھ کر موجودہ دور کے بھارت اور خود ہمارے ہاں سیاست میں جومنفی رویئے ابھر چکے ہیں اور دن بہ دن ان کا گراف پستی کی جانب تیزی سے لڑھک رہا ہے اس پر ہمارا اپنا ہی ایک شعربطور تبصرہ ملاحظہ فرمایئے
جھکا دی ہے جبیں ہم نے انا کا ذکر اب کیا ہو
کہ ہو جب چارسو اک پستیٔ کردار کا موسم
اس وقت نونوں ملکوں میں سیاست کے میدان میں ذاتی خود غرضیوں کی گرم بازاری نے ات مچا رکھی ہے ‘ اگرچہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ‘ اچھے اور باکردار لوگوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں مگر جو مثالیںکچھ لوگ قائم کر گئے ہیں ان کی نظیر نہیں ملتی ‘ اور جوکہانی ہم آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں وہ ایک نوے(90) سالہ ضعیف آدمی کی ہے جس کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا ‘ مالک مکان کوپانچ ماہ سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا ‘ اس نے طیش میں آکر اس بزرگ شخص کے گھر کاسامان باہر گلی میں پھینک دیا’ سامان بھی کیا تھا ‘ ایک چارپائی ‘ ایک پلاسٹک کی بالٹی اور چند پرانے برتن’ احمد آباد شہر کے ایک عام سے محلے کے ایک کمرے کے مکین کوفٹ پاتھ پر بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے ہوئے محلے کے لوگ مالک مکان سے التجا کرنے جا پہنچے کہ اسے گھر سے بیدخل نہ کیاجائے ‘ کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔ اتفاق سے ایک اخباری رپورٹر وہاں سے گزرا ‘ اس نے اس شخص کی تصویراپنے کیمرے کے ذریعے کھینچ کر’ رپورٹ بنا کر اخبارکے ایڈیٹر کے سامنے رکھی ‘ ایڈیٹر نے تصویردیکھ کر رپورٹرسے پوچھا ‘ کیا تم اس شخص کوجانتے ہو ؟ رپورٹر نے کہا میں نہیں جانتا بس اس کی بے بسی نے تصویر کھینچنے پر مجبور کردیا ‘ ایڈیٹر نے کہا ‘ ارے بے وقوف یہ دو مرتبہ ہندوستان کا وزیراعظم رہ چکا ہے ‘ اس کا نام گلزاری لال نندہ ہے ‘ رپورٹر کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ‘ اگلے روزہندوستان کے سابق وزیراعظم کی بے بسی کی خبر اور تصویر اخبار کے پہلے صفحے کی زینت بنی توریاست کا وزیراعلیٰ ‘ چیف سیکرٹری ‘ کئی وزراء اوراعلیٰ حکام اس کے محلے پہنچے سب نے ہاتھ جوڑ کراسے سرکاری گھر منتقل کرنے اور سرکار کی طرف سے وظیفہ مقرر کرنے کی بات کی توگلزاری لال نندہ نے صاف انکار کردیا کہ اسے سرکاری سہولت پرکوئی حق نہیں ہے ‘ وہ یہیں اسی کوارٹر میں رہے گا’ مالک مکان کو جب صورتحال کا علم ہوا تواس نے آکر گلزاری لال نندہ کے پائوں پکڑ کر معافی طلب کی ‘ نندہ جی نے بڑی مشکل سے صرف پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ قبول کر لیا ‘ اوراپنے آخری دم تک اسی کوارٹر میں قیام پذیر سرکاری وظیفے پرمشکل زندگی گزارتے رہے ۔ بقول داغ دہلوی
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں ‘ سامان تو گیا
کیا دونوں ممالک میں ہے کوئی ایسا جواقتدار سے الگ ہونے کے بعد سرکاری مراعات لینے سے انکار کر دے ؟ یہ ملین ڈالرسوال ہے ۔ سوچئے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا