1 173

”نرسری” آپشنز کی گہوارا ہوتی ہے

قومی سٹاک ایکسچینج کی طرح ملکی سیاست بھی اب قریب قریب ”منفی” کے گرد گھوم رہی ہے جس طرح سٹاک ایکسچینج میں مندی اور منفی میں چلے جانے کی خبریں سن کر اب کان تیزی اور مثبت کے الفاظ سے ناآشنا ہو چکے ہیں، اسی طرح ملکی سیاست میں مائنس ہو جانے کی بات کے سوا کوئی اور جملہ دلوں کو بھاتا ہی نہیں۔ کسی کا کسی بھی وقت مائنس ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی البتہ مائنس ون ٹو یا تھری پر دورائے موجود ہوتی ہیں۔ شاید اسی حقیقت کا اندازہ وزیراعظم عمران خان کو اس وقت ہوا جب اپوزیشن کی صفوں میں مائنس ون کی باتیں اور پیش گوئیاں زوروں پر تھیں۔ انہوں نے پہلے روز یہ کہا کہ مائنس ہوجانے کی باتیں چھوڑیں ان کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں۔ اس جملے میں بھٹو صاحب کی تمکنت جھلکتی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ میں مضبوط نہیں میری کرسی مضبوط ہے۔ دوسرے ہی دن عمران خان کو اندازہ ہوا کہ وہ ”ملک پاکستان” کے وزیر اعظم ہیں، جہاں کرسی مضبوط ہوتی ہے نہ کرسی نشین۔ جہاں کسی کے آنے پر ساحل کراچی پر لہریں رقص کرتی ہیں اور نہ کسی کے جانے پر ہمالیہ آنسو بہاتا ہے۔ ایسا سمجھنے والے بے شمار لوگ تاریخ کے عجائب خانوں میں سجے بیٹھے ہیں اور کبھی کبھار سوشل میڈیا پر ان کی تصویر اُبھرکر یاد کا کوندا لپکانے کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان چونکہ جاگیردارانہ مزاج کی سیاست کا حامل رہا اس لئے یہاں جاگیردارانہ سوچ ہر طبقے اور ادارے میں سرایت کر گئی۔ حکمران تو خصوصیت کیساتھ ناگزیریت کے کورونا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک عجیب طرح کا خبطِ عظمت ان کے اعصاب پر سوار ہو جاتا ہے۔ حکمران کی تو بات کی ہی میونسپل کونسلر بھی دوتین سال اپنے عہدے پر رہے تو اچھے بھلے گوشت پوست کے انسان میں سریا نمودار ہوتا ہے اور یوں ناگزیریت کا خمار یہاں معمولی سی طاقت پکڑنے والوں کے دماغ میں سرایت اور گھر کر جانا اب عام روایت ہے۔ اچھا ہوا کہ عمران خان نے دوسرے ہی دن فلسفۂ ناگزیریت کو جھٹک کر پھینک دیا اور کہا کہ میں مائنس بھی ہوا تو آنے والا ان کو نہیں چھوڑے گا۔ کرسی مضبوط نہیں اللہ کی ذات مضبوط اور طاقتور ہے۔ یہی انداز اصول فطرت اور زمینی حقائق سے لگاؤ کھاتا ہے۔ آپشن نہ ہونے کی بات پاکستان کی سیاست تاریخ میں ایک سراب ہی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی نرسری ہے۔ شیخ رشید احمد فوجی گملوں اور گیٹ نمبرچار کی بات کر کے کوئی افسانہ نہیں سناتے، حقیقت حال بیان کرتے ہیں۔ نرسری پودوں اور گملوں کی کہکشاں ہی نہیں ہوتی بلکہ آپشنز کا جہان بھی ہوتی ہے۔ جہاں گلہائے رنگارنگ کی مانند ایک سے ایک آپشن موجود ہوتا ہے، ایک سے ایک شگوفہ پھوٹ پڑنے کو تیار ہوتا ہے، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کون کس انداز سے رخصت ہوا ۔ قومی حکومت کی جس اصطلاح پر آج کی اپوزیشن اور بیتے کل کی حکومتی جماعتیں سیخ پا ہوجاتی تھیں اور اس اصطلاح کو اس دلیل کیساتھ جمہوریت کے قتل پر محمول کرتی تھیں کہ منتخب حکومت ہی قومی ہوتی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ آج خواجہ آصف اسی قومی حکومت کے تصور کی حمایت کرتے ہیں اور یہ حکومت کون قائم کرے گا پوچھنے پر وہ سیدھا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف کرتے ہیں۔ پاکستان میں تو اس بات کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی کہ کون کس ادا اور انداز سے رخصت ہوا۔ یہاں الزامات کی پوٹلی اُٹھا کر اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونے والا چند سال حالات کی لانڈری میں دھلنے کے بعد اگلی بارات کا دولہا بن کر سامنے آتا ہے۔ عمران خان کے سخت گیر حامی پراُمید ہیں کہ وہ مائنس نہیں ہوں گے۔ خود عمران خان اقتدار کی بے ثباتی کا کھلے بندوں اعتراف کر چکے، عمران خان زبان سے جو بھی کہیں مگر ان کا عمل انہیں ”فالٹ لائن” پر مسلسل کھڑ ا رکھے ہوئے ہے۔ وہ پاکستان میں تادیر حکومت کرنا چاہتے تو اپنے اتحادی چوہدری شجاعت حسین کا ”مٹی پاؤ” فارمولہ آبِ زر سے لکھوا کر اپنے دفتر میں سجاتے۔ اس فارمولے میں سب کی خوشی بھی تھی اور جمہوریت کا حسن بھی، بقائے باہمی بھی آدھا تمہارا آدھا ہمارا جیسی صلح جوئی بھی۔ عمران خان نے مٹی پاؤ فارمولے کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ میر کی بیماری کا علاج عطار کے لونڈے کی دوا سے کرنے والی بات ہے۔ یوں عمران خان مفاہمتی سیاست اور مٹی پاؤ فارمولے کے اصول کے اطلاق کی راہ میں بڑا روڑا بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کی سخت گیری اور لچک سے عاری رویہ انہیں خطرات کی بارودی سرنگوں پر چلا رہا ہے۔ بارودی سرنگوں پر رقص آسان نہیں ہوتا یہاں نہ کرسی اور نہ کرسی نشین مضبوط ہوتا ہے اور نہ ہی آپشن نہ ہونے کا فلسفہ کارگر رہتا ہے۔ اس ماحول اور منظر میں کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اب عمران خان پانی میں رہنا بھی چاہتے ہیں اور مگرمچھ سے بیر بھی پالتے ہیں تو یہ جیو اور جینے دو کی بات تو نہ ہوئی۔ وہ اقتدار کی شاخ نازک، مانگے تانگے کی اکثریت پر بیٹھ کر احتساب کا کوڑا لہراتے ہیں تو اس وزن سے یہ شاخ خود ہی لچکتی چلی جاتی ہے اور شاخ پر بیٹھے ہوئے شخص سے زیادہ شاخ کے لچکنے کا اندازہ کسی اورکو نہیں ہوسکتا۔ عمران خان مائنس ون کی باتیں کرتے ہیں تو یہ شاخ کی لچک کا اظہار واحساس ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام