نصف ایمان کوخطرہ۔۔۔

”پاکیزگی ایمان کا ایک جزہے”(کنز العمال)۔”دین بنایا گیا ہے ستھرائی پر ”(احیاالعلوم )۔”پاکیزگی آدھا ایمان ہے”(ترمذی)۔ ”اسلام پاکیزہ ہے پس پاکیزگی اختیار کرو اس لیے کہ پاکیزہ لوگ ہی جنت میں داخل ہوں گے”(کنزالعمال)۔ ”اپنے جسموں کو پاک رکھو اللہ تمہیں پاکیزہ رکھے گا۔اس لیے کوئی بندہ ایسا نہیںہے جو رات گزارے پاکی کی حالت میں ،مگر اس کے ساتھ فرشتہ نہ ہو” (کنزالعمال)۔۔۔۔”اس میں وہ لوگ جن کو خوشی ہے پاک رہنے کی ، اور اللہ چاہتا ہے ستھرائی والوں کو ” (سورةتوبہ)۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی مشکل رکھے لیکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک رکھے”۔”اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والے بندوں کو محبوب رکھتا ہے”(سورةبقرہ)۔۔۔قارئین یہ چند احادیث نبویۖ اور کچھ آیات قرآنی پیش خدمت ہیں کہ جن کے مفہوم میں پاکیزگی ، طہارت اور صفائی کی اہمیت مضمر ہے۔مسلمان کے لیے قرآن اور حدیث کی کیا اہمیت ہے اس پر صراحت کرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ہم سب الحمدللہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔سوال یہ ہے کہ جس پاکیزگی ،صفائی اور ستھرائی کو ایمان کا جز اور ایمان کا آدھا حصہ کہا گیا ہے تو کیوں کہاگیا ہے ؟اور اس پر ہمارا عمل کتنا ہے؟۔اور یہ بھی سوال ہے کہ پاکیزگی اور طہارت کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حد کون سی ہے۔ان سوالات کا جواب اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکیزگی اگر ایمان کا حصہ ہے تو کہیںخدانخواستہ ہم سب خسارے میں تو نہیں؟۔اسلام میں تو سِیوک سینس کے ایک ایک پہلو کی صراحت موجود ہے مگر ہم کیوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ اپنے بدن یا زیادہ سے زیادہ اپنی متعلقہ چیزوں کو صاف رکھ کر گویا ہم نے اپنے نصف ایمان کو محفوظ کرلیا ہے تو ہماری غلطی ہوگی۔جب ہمارے شہر کو دنیا کےDirtiest citiesکی فہرست میں بلند مقام مل چکا ہو تو پھر کم از کم ہمیں نصف ایمان کے تحفظ کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیئے۔ہماری تمام عبادتوں پر غور کیا جائے تو ان میں جسمانی اور روحانی پاکیزگی کا حصول مضمر ہے۔جب دونوں پاک ہوجائیں تو نجات ہی نجات ہے۔سوال یہ ہے کہ جسم اور روح کی پاکیزگی ماحول کی پاکیزگی کے بغیر کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ہماری سڑکیں دھول اڑاتی ہیں،ہماری گلیاںگندگی کے ڈھیرمیں تبدیل ہوچکی ہیںاورہمارے بازارتعفن اگلتے ہیں توپھرہم کیسے پاکیزہ ہوسکتے ہیں ایسی حالت میںہمارے بدن کیسے اپنی طہارت قائم رکھ سکتے ہیں۔ہماری روحیں کیسے آسودہ اور معطر رہ سکتی ہیں۔ہمیں کم از کم یہ تو مان لینا چاہیئے کہ ہم نے من الحیث القوم ایک گندے ماحول کو ذہنی طور پر قبول کرچکے ہیں۔ہمارے پوش علاقے تو کسی حد تک صفائی کی بہتر صورتحال میں دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ بہتر صورتحال بھی کوئی اعلیٰ صورتحال قطعاًنہیں ہے ۔صوبے کے میٹروپولیٹن شہر میں بیت الخلاء کا نہ ہونا اس بات کی غمازی ہے کہ ہم صفائی ستھرائی میں کتنے سنجیدہ ہیں کیونکہ بیت الخلاء کا نہ ہونا اس بات کا اذن ہے کہ کوئی بھی نالی ،کوئی بھی بازار،کوئی بھی سڑک اور کوئی بھی محلہ اس مقصد کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے اور ہم روزانہ اس عمل کے کتنے بیہودہ نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔اصل میں صفائی ستھرائی ،طہارت ،پاکیزگی ہمارا مسلہ ہی نہیں ۔ہمارے مشام جاں بند ہوچکے ہیں کہ ہمیں کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھتی سڑاند اور تعفن پر ناگواری نہیں ہوتی ۔بدبوؤں کے ان بھبھکوں کے درمیان ہم نے جینا سیکھ لیا ہے جیسے کیڑے مکوڑے سیکھ لیتے ہیں۔ہماری طلب ہوتی تو ضرورہماری کارپوریشنیں اور شہری علاقے ہماری ضروتیں بھی پوری کرتے،ہماری طلب ہی نہیں تو ان کی بلا سے ۔ہم فلسطین ،کشمیر،بیروت کے شہروں کی تباہی پر نوحہ کناں ہیں کہ ان شہروں کی تباہی سے ہمارے ایمان کو ٹھیس پہنچتی ہے لیکن اپنے شہر کی ”پلیدگی”پر ہم نے کوئی جلسہ جلوس نہیں نکالاکہ اس شہر میں بس کر ہمارا ”نصف ایمان”غیرمحفوظ ہے ۔ہم اس شہر میں آدھا ایمان لیے پھر رہے ہیں۔باقی کا جو آدھا ایمان ہے اسے بھی دیکھ لیں کہ ہم اس بقیہ ایمان میں کیا کرتے ہیں۔وطن کی محبت کو بھی ایمان کا حصہ قراردیا گیا ہے ۔وطن کی محبت ہی جو نہیں تو وطن کہاں باقی رہ سکتا ہے ۔ہم اپنے شہر سے بے حس ہوچکے ہیں کیونکہ محبت ہوتی تو عزیزاعجاز کے بقول
جانے کون گزرتا ہے اس رستے سے
یہ رستہ ہر روز معطر رہتا ہے
مگر اب تو یہ رستے بیگانے ہوچکے ہیں۔اپنائیت کھوچکے ہیں۔پھر ان رستوں سے لگاؤکیوں ہو۔باہر کی دنیا کی صفائی ،طہارت اور پاکیزگی کودیکھ کر کڑھتے بھی ہیں اور احساس کمتری کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔مسلہ ذوق سلیم کا بھی ہے کہ جو شایدکہیں ہمارے درون میں اپنی موت آپ مرچکا ہے ۔ذوق سلیم نہ ہوتو پھر بدبو محسوس نہیں ہوتی ، تب مکروہ نظارے پریشان نہیں کرتے ۔بس شکم کو پر کرنا ہی مقصدحیات بن جاتا ہے ۔حالانکہ جنگلوں میں بھی یہی قانون چلتا ہے ۔شہر تو تہذیب کے عناصر وعلامت ہوتے ہیں۔وہ تہذیب کہاں گئی ،یا تو شہر شہر نہیں رہا یا پھر شہری شہری نہیں رہے اور یا پھر دونوں کے درمیان جو اپنائیت اور محبت کا رشتہ تھا وہ ختم ہوچکا ہے ۔میرا سوال اب بھی وہی ہے کہ ہم تو مسلمان ہیں اور مسلمان کی پہچان اس کاایمان ہی ہے ۔مسلمان جس اللہ کو مانتا ہے وہ پاک ہے ،جس ذات کا امتی ہے ،اس محمد ۖ کی ذات پاک ہے ،جس کتاب ،قرآن کومانتا ہے وہ کتاب پاک ہے ،پھر جس شہر میں مسلمان رہتا ہے وہ پاک کیوں نہیں ہے ؟کیا ہم سے ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ سوال نہیں پوچھا جائے گا کہ اے بندے تجھے ایک خوبصورت شہر عطاکیاگیا تھااور تونے اس کی طہارت برباد کردی ۔۔آئیے اس بہت سوال پر سوچیں کہ ہم اپنے نصف ایمان کو کیسے محفوظ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟