1 508

نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے

پوری دنیا میں حالات وواقعات کا دھمال پڑا ہوا ہے، دھمال کا عروج بھی تب ہوتا ہے جب دھمال ڈولی پر مدہوشی طاری ہو، اس مدہوشی کے اثرات دنیا بھر کے افراد پر بھی منعکس ہو رہے ہیں۔ وہ گم سم دماغ لئے بیٹھے ہیں، ان کو جان کاری ہو ہی نہیں رہی کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ اسی کشاکشی میں کوئی راہ بھی تو نہیں سجھائی دے رہی ہے۔ کل جو بات لب ودہن سے نکلتی تھی آج عمل برعکس نظر آرہا ہے۔سیاستدانوں کا عوام کیساتھ یہ وتیرہ رہا ہے بلکہ ہے کہ وہ عوام کو اگر کندذہن نہیں تو کم ذہن ضرور گردانتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام گزرے کل کو یاد نہیں رکھتے، آنے والے کل پر محض آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ بہرحال کئی روز سے یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی قربت کو یقینی بنانے کیلئے زمینی اور فضائی حدود کے استعمال کی بھی اجازت مرحمت فرما دی ہے۔ اس بات کا اعلان یا دعویٰ بھی امریکا کے انڈوپیسفیک افیئرز کے نائب وزیردفاع جو امریکا میں اسسٹنٹ سیکرٹری دفاعی امور کہلاتا ہے، مسٹر ڈیوڈ ایف ہیلوے نے امریکی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ میںکیا، نائب وزیردفاع ڈیوڈ ایف ہیلوے نے یہ بھی بتایا کہ امریکا ان امور پر پاکستان کیساتھ روابط رکھے گا کیونکہ افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی موجودگی میں مدد کیلئے پاکستان کے اوپر فلائٹ اور زمین کے استعمال کی اجازت بھی دیدی ہے جس کی پاکستان کی جانب سے تردید ہوچکی ہے۔ یہاں واضح رہے کہ امریکا طالبان معاہدے کے مطابق امریکی افواج کو افغانستان سے مئی تک نکل جانا تھا تاہم بعد میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا کہ یکم مئی سے امریکی افواج کا انخلاء تو شروع ہو جائے گا مگر یہ انخلاء ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بیس سال پورے ہونے پر مکمل ہو جائے گا۔ پاکستان نے امریکا کو تیسری مرتبہ اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، سب سے پہلے پاکستان کے پہلے آمر جنرل ایوب خان نے پشاور کے نواحی علاقہ بڈھ بیر میں امریکی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی، اس اڈے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اڈہ کالعدم سوویت یونین کی جاسوسی کی غرض سے قائم کیا گیا تھا، سوویت یونین کے ریڈار پر ایک امریکی جاسوس طیارہ پایا گیا تھا جس کے بارے میں سوویت یونین کی جانب سے کہا گیا کہ یہ طیارہ پاکستان کے شہر پشاور میں قائم امریکی فوجی اڈے سے اُڑان بھر کر سوویت یونین کی حدود میں داخل ہوا چنانچہ اس موقع پر اس وقت کے سوویت یونین کے وزیراعظم برزنیف نے کہا تھا کہ سوویت یونین نے اپنے اہداف میں پشاور کو سرخ دائرے میں لے لیا ہے اور اس موقع پر بے انتہا پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تھی اور کئی خطرے منڈلانے لگے تھے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم جن کے سیاسی کردار یا نظریات یا قول فعل پر کتنے اعتراضات کئے جائیں یا اختلافات ہوں تاہم یہ حقیقت ہے کہ جب وہ سقوط ڈھاکا کے بعد برسرا قتدار آئے تو انہوں نے امریکی اڈے کے قیام کے معاہدے کے پورا ہونے پر اس کی تجدید سے انکار کر دیا۔ جہاں سے امریکا اور بھٹو مرحوم کے درمیان ایک خلیج نے بھی جنم لیا اور امریکیوں کو اپنا فوجی ساز وسامان سمیٹ کر نکلنا پڑا۔دوسری مرتبہ پرویز مشرف نے امریکیوں کو خوب کھلی اجازت دی جس کیخلاف وزیراعظم عمران خان کو شدید احتجاج کرنا پڑا تھا، اب تیسری مرتبہ یہ کارکردگی موصوف نے خود دکھا دی ہے، مسئلہ کوئی خاص گمبھیر نہیں ہے صرف یہ جانکاری چاہئے کہ پاکستان ایک پارلیمانی نظام کے تابع ہے یا کسی شخصی اور انفرادی قوت کے ہاتھ میں ہے۔ اصولی طور پر امریکا کو جو بھی مراعات چاہئے تھی اس کا معاملہ پارلیمانی نظام کے اصول کے مطابق سب سے پہلے پارلیمان میں لے جانا چاہئے تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارلیمان کو محض آرڈیننسوں کے شمار کیلئے بٹھا دیا گیا ہے۔ پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان کی فضائی وزمینی حدود کن فوجی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی غرض رکھتا ہے، کیا امریکا اب بھی افغانستان کے امور میں دخیل رہنا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ افغانستان میں کوئی خودمختار حکومت اور نظام وجود پذیر ہو، بلکہ وہ یہ خواہش ہنوز لئے ہوئے ہے کہ افغانستان میں مستقبل کا نظام اس کی خواہش کا نظام ہو اور وہاں اس کی کٹھ پتلی حکومت قائم رہے تاکہ اس کی گرفت افغانستان پر ویسی ہی رہے جس کی اس کو خواہش ہے۔ جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے تو امریکا یہ جانتا ہے کہ اس کی حیثیت سوویت یونین کی طرح ایک مقابل عالمی طاقت کی طرح نہیں ہے وہ ایک پسماندہ ترین ملک ہے اور دفاعی شعبہ بھی مضبوطی کا حامل نہیں ہے مگر یہ بھول رہا ہے کہ افغانستان کے عوام ناقابل تسخیر ہیں جس حالت میں امریکا افغانستان سے اخراج کر رہا ہے وہ شکست خوردہ سے بھی بدتر ہے۔ سوویت یونین بھی بڑے طمطراق سے افغانستان میں گھس بیٹھا تھا اس کا حشر جو ہوا اس سے امریکا اچھی طرح باخبر ہے۔ سوویت یونین نے افغانستا ن سے انخلا کے وقت کوئی بھیک نہیں مانگی تھی یکطرفہ طور پر اپنا بوریا بسترا اُٹھا کر رفو چکر ہو لیا تھا۔

مزید پڑھیں:  تحفظ آئین