نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

پچھتر سال کافی لمبی مدت ہوتی ہے اس میں کافی لمبے سفر بھی طے کئے جاسکتے ہیں اور ہم نے قیام پاکستان کی منزل کے جوش و خروش میں کافی تیزی کے ساتھ سفر شروع بھی کیا اور امید بندھ چلی تھی کہ بہت جلد منزل کے قریب پہنچیں گے لیکن وائے رے شامت کہ پھر اچانک منزل کی راہ کھو بیٹھے، وہ دن ا ور آج کا دن کہنے کو ریاست و حکومت کے سارے ادارے وجود میں آگئے لیکن بدقسمتی رہی کہ ادارے مضبوط نہ ہوسکے، اداروں کے مقابلے میں ہمارے ہاں زیادہ زور شخصیات پر رہا اور یہی وجہ تھی کہ وقتاً فوقتاً ہر سطح پر راکھ میں سے ایک آدھ چنگاری ضرور چمک شعلہ جوالہ میں تبدیل ہوکر کچھ مدت کیلئے روشنی کا سامان کیا لیکن پھر ہماری مثال ان کی سی ہوگئی ”جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا” اور پھر ان کو کچھ نہیں سوجھتا۔
میں ایک طالب علم کی حیثیت سے تخلیق پاکستان اور اس کے بعد ہمارے اعمال و کرتوت پر غور و فکر کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مبارک سامنے آجاتا ہے ”اور یاد کرو وہ وقت جب تم تھوڑے تھے دبے ہوئے تھے تم ڈرتے تھے کہ کہی لوگ تمہیں اچک کر نہ لے جائیں تو اللہ نے تمہیں ٹھکانہ (پاکستان) دیا اور مدد سے تمہیں قوت (ایٹم بم) دی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا تاکہ تم شکر ادا کرو۔”
متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جو معاشی و معاشرتی حالت ہمارے ابا و اجداد پر گزری ہے اس کا پورا پورا اندازہ اور احساس تو ہم شاید نہ کرسکیں لیکن آج کے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا حال و احوال دیکھ کر اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر علمائ، اکابرین اور عوام نے قربانیاں دے کر ہمارے لئے الگ وطن حاصل نہ کیا ہوتا تو ہماری کیا حالت ہوتی۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی مدینہ طیبہ میں آباد ہونے پر نازل ہوئی تھی اور انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا وہ احسان عظیم یاد کرایا وہ مکہ مکرمہ میں قلیل تعداد میں ہونے کے سبب دبے ہوئے خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں کوئی اچک نہ لے بالکل اسی طرح قیام پاکستان سے قبل کے قریبی زمانے میں مسلمانان ہند کا یہی حال تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان عظیم کرکے ہمیں پاکستان جیسی عظیم نعمت سے بہرہ ورکیا تاکہ ہم شکر ادا کرسکیں لیکن افسوس کہ ہم بہت ناشکرے ٹھہرے اور ناشکری کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فرمان قرآن کریم میں ہے وہ یہ ہے کہ ”اگر تم (میری نعمتوں) کا شکر ادا کروگے تو میں نعمتوں میں اضافہ کردوں گا اور اگر کفران نعمت کیا تو پھر میرا عذاب بہت سخت ہے”ہم نے نعمت پاکستان کی ہر لحاظ سے ناشکری کی اور اس کی ہمیں اتنی کڑی سزا ملی کہ تاریخ اسلام میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارا مشرقی بازو ہم سے ایسے انداز میں الگ ہوا کہ ہمارے تقریباً نوے ہزار سویلین اور افواج بھارت جیسے تنگ نظر دشمن کے قیدی بن گئے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جب ہمارا جرنیل اے کے نیازی آروڑہ کے سامنے پستول خالی کرکے پیش کر رہا تھا تو بین الاقوامی میڈیا کے کیمرے اس منظر کو پاکستانیوں کے ماتھے پر ہمیشہ کیلئے ایک کلنک کے ٹیکہ کے طور پر محفوظ کر گئے، ہندوستان میں یہ منظر ہر سال 16 دسمبر کو بہت اہتمام کے ساتھ دنیا بھر کو دکھایا جاتا ہے، ہندوستان کی قید میں ہمارے بھائی بندوں پر کیا گزری اس المناک داستان و روداد کو وہاں قید کئی ایک لوگوں نے قلمبند کیا ہے لیکن صدیق سالک صاحب نے ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” اور ”ہمہ یاراں دوزخ” میں جس انداز سے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر رقم کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، کاش ان کتابوں کو ہماری نوجوان نسلوں کو نصاب میں پڑھایا جاتا۔
1971ء کے بعد چاہئے تھا کہ ہم عبرت حاصل کرکے باقی ماندہ پاکستان کی تعمیر میں سب مل کر بھائیوں کی طرح اپنی جانیں کھپاتے لیکن افسوس کہ ہم نے اس المناک سانحے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا، اگر ہم سبق سیکھنے والے ہوتے تو کم از کم پھر پاکستان میں کوئی مارشل لاء نہیں آنا چاہئے تھا لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ 1971ء کے بعد ہم نے دو ”عظیم” مارشل لاء بھگتائے ایک میں اسلامائزیشن کے نام پر لوگوں کو کوڑے مارے گئے اور ٹکٹکیوں پر چڑھایا گیا اور جیلوں میں بھردیا گیا اس کے ردعمل میں ”ذوالفقار ” وجود میں آئی اور اس کی تلخ داستان ہماری ناشکریوں کی تاریخ کا حصہ ہے۔
1971ء کے سانحہ سے بچنے کیلئے کتنے دانشوروں نے ہمارے ”طاقتوروں” کو دستہ بستہ عرض نامے پیش کئے لیکن افسوس کہ ان کی فریادیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں، حبیب جالب نے کس درد کے ساتھ پاک افواج کو مشرقی پاکستان میں آپریشن سے منع کرنے کی کوشش کی لیکن کلام نرم و نازک کا گولی سے کیا مقابلہ۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اور ہمارے بہت ہی محب وطن شاعر کرنل سید ضمیر جعفری نے اے کے نیازی اور آروڑہ کے درمیان معاہدہ پر دستخط کے منظر کے حوالے سے کس درد کا اظہار کیا تھا۔
نیازی نے آروڑہ کو باچشم تر کیا پیش جب اپنا ریوالور
تو ایک پل میں صدیوں کا خون ہوگیا سر پاک پرچم نگوں ہوگیا
آج ایک دفعہ پھر پاکستان ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جہاں 1954ء میں افراد اور بعض مخصوص سیاسی جماعتوں کے خلاف غداری کے الزامات اور پھر پابندیاں لگائی گئیں، سیاسی رہنمائوں کیلئے اسپیشل ٹریبونل بنائے گئے، خان عبدالولی خان اور مجیب الرحمن جیسے سیاستدانوں کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا آج ایک دفعہ پھر پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مقبول سیاسی شخصیت و جماعت کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اس کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے اور ان کو شفاف عدالتی پراسس سے گزارنا ابھی شاید بہت دورکی بات لگتی ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ قومی و فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والوں کو قانونی مراحل کے ذریعے قرار واقعی سزا دی جائے لیکن یہاں اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس وقت پاکستان کی نوجوان نسل جو پڑھی لکھی ہے اور چاروں صوبوں سے ہے کے اذہان میں یہ بات کلبلا رہی ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو لندن پلان کے تحت سیاست سے باہر رکھنے کی منصوبہ بندی اس انداز میں ہوئی ہے کہ اس کے ڈانڈے حکومتی اداروں سے ملتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت ہے اور اس کے ساتھ ہی پہلی دفعہ پاکستان کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے اور یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اگر آئین پاکستان کے مطابق 90 دن کے اندر انتخابات ہو جاتے تو عمران خان کی تحریک انصاف دوتہائی اکثریت آسانی کے ساتھ حاصل کرلیتی لیکن وہ تو حیلوں بہانوں سے نہ ہونے دیا گیا یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے حکم کو بھی بہت فخریہ انداز میں ہوا میں اڑا دیا گیا اور پھر عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے دوران جس بھونڈے انداز رینجرز کے ذریعے گرفتار کرایا گیا وہ نوجوانان انصاف کو فوجی تنصیبات کی طرف اشتعال دلانے کا تھا، اس لئے آج جو لوگ ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کے خلاف بہت کم لوگ ہوں گے لیکن عمران خان کی اس بات و مطالبے میں کافی وزن ہے کہ جوڈیشل انکوائری یا کمیشن کے ذریعے مکمل تحقیقات کرائی جائیں تاکہ پتہ چلے کہ کور کمانڈر ہائوس کی حفاظت پر مامور لوگ اور 25 مئی 2022ء کو پرامن احتجاج کیلئے آنے والے تحریک انصاف کے لوگوں کے خلاف رانا ثناء اللہ نے جو اقدامات سینہ تان کر کئے اس کی وہ بہادر پولیس یہاں کہاں غائب رہی، اس وقت تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف جو کریک ڈائون ہو رہا ہے اس کے پاکستان کے مستقبل پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں آج کے یہ نوجوان اور دس بارہ سال کے بچے یہی یادیں دل میں بسائے آگے بڑھیں گے عضب خدا کا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ خواتین کو گھروں سے ایسے اٹھایا جا رہا ہے جیسے ہندوستانی افواج مقبوضہ کشمیر میں اٹھاتی ہیں ایک مقدمہ میں عدالت سے رہائی ملتی ہے تو عدالت کے دروازیکے باہر وزیر داخلہ کے سورما کسی اور بوگس مقدمے میں وارنٹ گرفتاری کے بغیر مستعد کھڑے ہوتے ہیں۔آج اس نازک اور سنگین لمحات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جس کے بارے میں دھیمے لہجے کے حامل صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے 18 مئی کو اخبارات کو جاری اپنے ایک کالم میں اظہار کیا ہے کہ ہمارے ارد گرد دنیا تبدیل ہو رہی ہے ہمارے گہرے دوست چین نے بریکس (BRICS) اور سعودی ایران معاہدہ کرا کر نئے بااعتماد دوست تلاش کرلئے ہیں اور پاکستان تنہا ہوتا جا رہا ہے موجودہ دور میں ہمارے پڑوس ایران سعودی امن معاہدہ ان کی قیادتوںکی دوراندیشی کی شاندار مثال ہے جبکہ پاکستان میں عوام اور سیاسی کارکنوں کے سامنے سوال رکھ رہے ہیں کہ آپ پاکستان کے ساتھ ہیں یا پاکستان کے خلاف؟ یہ سوال شاید ہم سپرپاور سے سیکھا ہے جس نے ایک زمانے میں ہمارے طاقتوروں سے پوچھا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ؟ ہم نے بامر مجبوری کہا تھا حضور ہم تو آپ کے ساتھ ہیں تب ہم پر ڈبل گیم کا الزام بھی لگا تھا۔
کیا آج ہماری قیادت، عسکری، سیاسی (حزب اقتدار و مخالف) سب مل کر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا گوارا کریں گے کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا یا اس سے پہلے 16 دسمبر 1971ء کو یا پچھتر برسوںکے اندر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور الذوالفقار تنظیم کی کارروائیوں اور جنرل ضیاء کے ساتھ کئی جرنیل اور فوجی آفیسرز اس سے دنیا سے رخصت ہوئے کیا ہم ایک دفعہ پھر اپنی وہی تاریخ دہرانے کی حماقت کریں گے۔ خدارا عسکری قیادت لیڈ لیتے ہوئے کہ چیف آف آرمی سٹاف پر دہری ذمہ داریاں ہوتی ہیں سب سیاستدانوں کو پارلیمنٹ ہائوس میں جمع کرا کر صاف و شفاف انتخابات کا اعلان کروائیں اور اقتدار منتخب جماعت کے حوالے کیا جائے۔ ورنہ خدانخواستہ اس وقت تحریک انصاف کو توڑنے وغیرہ کی جو کوششیں اور فوجی عدالتوں کی گونج سنائی دی رہے ہے اس سے پاکستان کے استحکام میں کوئی اضافہ ہونے والا نہیں بلکہ نقصانات کا اندیشہ بڑھے گا۔ افتراق و انتشار سے کبھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے عسکری قیادت کو اس بات پر غو رکرنا ہوگا کہ پاکستان میں کوئی بھی پاک افواج کے خلاف نہیں سب اس کے عاشق و شیدائی و فدائی ہیں بس ایک ذرا سی بات کہ پاک افواج تہمت کی جگہوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں، خاتم النبیینۖ کا فرمان ہے ”کہ تہمت کی جگہوں سے دور رہو” ورنہ آپریشن کلین اپ سے مزید انتشار و ضعف کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ عمران خان کی مقبولیت ایک اٹل حقیقت ہے یہ کوئی مانے یا نہ مانے سو بیس لوگوں کا ادھر ادھر ہوجانا عمران خان کی پارٹی کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ شایداس سے تحریک انصاف مزید مضبوط ہوکر ابھرے گی، اے اللہ پاکستان کی حفاظت فرما۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری ، اقدامات اور تعاون