p613 172

نیلم جہلم سرچارج پر اُٹھتے سوال

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے بجلی بلوں میں نیلم جہلم سرچارج کی وصولی فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق حکومت نے نیلم جہلم سرچارج کی مد میں عوام سے5ارب روپے اضافی وصول کئے ہیں،صوبائی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے ارکان کی جانب سے قرار داد جمع کرائی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ ایوان(صوبائی اسمبلی)وفاقی حکومت سے اس امر کی سفارش کرے کہ بجلی صارفین سے بجلی بلوں میں نیلم جہلم سرچارج کی وصولی فی الفور ختم کی جائے کیونکہ مذکورہ منصوبہ مکمل ہوچکا ہے جہاں تک بجلی بلوں میں نیلم جہلم سرچارج کی وصولی کا تعلق ہے اس حوالے سے منصوبے کی تکمیل اور خاص طور پر اس کے اخراجات کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم پوری ہونے کے بعد جس کی تصدیق بقول محرکین قرارداد نے بھی کردی ہے یعنی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق محرکین کا دعویٰ یقینا اہمیت رکھتا ہے تو اس کے بعد جبکہ اضافی5ارب روپے بھی اب تک وصول کئے جا چکے ہیں اس ضمن میں عوام پر یہ سرچارج مزید عائد رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز بنتا ہے نہ قانونی طور پر اسے درست قراردیا جاسکتا ہے، اس لئے عوام کو تھوڑا بہت ریلیف دینے کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے یہ سرچارج فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے، تاہم یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے معاملات میں حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کبھی نہیں کرتی،متحدہ پاکستان کے دور میں جب بنگلہ دیش مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا اور وہاں ہر سال طوفان تباہی مچا دیتا تھا ایک بار شدید طوفان کے بعد جس سے بہت زیادہ تباہی مچی تھی، لاکھوں افراد کے گھر طوفان کی نذر ہوگئے تھے اور مکینوں کو امدادی کیمپوں میں پہنچا کر ان کی دوبارہ آباد کاری کیلئے کوششیں کی جارہی تھیں،اس دور کی حکومت نے پیٹرول پر ایک روپیہ گیلن اضافی ٹیکس عائد کر کے اسے سیلاب فنڈ کے نام سے وصول کرنا شروع کر دیا تھا،مگر کچھ مدت بعد جب1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں سیاسی مسائل نے سراُٹھا یا اور بالآخر مشرقی پاکستان کے عوام نے علیحدگی اختیار کر لی،تو اس کے بعد بھی موجودہ پاکستان میں کئی سال تک یہ سیلابی فنڈباقاعدگی کیساتھ وصول کیا جاتا رہا اور مدت بعد جب اس پر احتجاج شروع ہوایعنی اس کیخلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہوئیں تب جا کر یہ سیلاب فنڈ وصول کرنا بند کردیا گیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ملک بھر میں مختلف مقامات پر سڑکوں اور پلوں پر عاید ٹول ٹیکس کی ہے، اگرچہ محولہ پل اور سڑکوں پراُٹھنے والے اخراجات کب کے پورے ہوچکے ہیں مگر اعدادوشمار کی عدم دستیابی کے باعث عوام آج تک یہ ٹول ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں، اس حوالے سے اگر درست اعدادوشمار حاصل کئے جائیں تو اصل صورتحال سامنے آسکتی ہے۔ سڑکوں کے حوالے سے تو خیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی ضروری مرمت کا تقاضا ہے کہ عوام کچھ نہ کچھ حصہ اس میں ڈالیں،مگر سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت اس بات کی غماض ہے کہ وصول کی جانے والی رقم کا درست استعمال دکھائی نہیں دے رہا یعنی کئی برس سے ان سڑکوں کی مرمت نہیں کی گئی ،اس لئے نہ صرف اس جانب توجہ دینا ضروری ہے بلکہ جن پلوں کی قیمت سے کئی گنا زیادہ رقم اب تک وصولی کی جاچکی ہے ان پر بھی مزید ٹول ٹیکس ختم کیا جائے اور نیلم جہلم سرچارج کی وصولی فوری طورپر بند کی جانی چاہئے۔اس سلسلے میں بال اب صوبائی اسمبلی کے کورٹ میں تو ہے مگر وہ تو صرف سفارشی قرارداد ہی منظور کرسکتی ہے جبکہ اُمید نہیں ہے کہ وفاقی حکومت اسے کوئی اہمیت دے گی۔البتہ اگر جماعت اسلامی اس حوالے سے عدلیہ سے رجوع کرے تو ممکن ہے کہ عوام کو ریلیف مل سکے کیونکہ اضافی5ارب کی وصولی کے بعد مزید سرچارج کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ اُمید ہے اس سلسلے میں وفاقی حکومت ضروری فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرے گی۔

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم