وارداتوں میں تیزی

خیبرپختونخوا، خودکش دھماکوں سمیت دہشتگرد وارداتوں میں تیزی

ویب ڈیسک: خیبرپختونخوا میں خودکش حملوں سمیت دہشتگردی کی وارداتوں میں تیزی آگئی اور 48 گھنٹوں کے دوران سیکورٹی اہلکاروں اور پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔ جس میں 5 پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ سیکورٹی فورسز سمیت کئی پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔ محرم الحرام سے ایک روز قبل شروع ہونے والے دہشتگردی کے ان واقعات پر صوبہ کے عوام میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، جبکہ صوبہ بھرمیں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ منگل کو دوپہر کے بعد حیات آباد فیز 6 میں ایف سی کی گاڑی کو خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا جس میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت تقریبا 10 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعہ کے بعد بدھ کی رات تقریبا 12 بجے ریگی ماڈل ٹائون کے انٹری چیک پوائنٹ پر موجود پولیس اہلکاروں کو نامعلوم دہشتگردوں نے نشانہ بنایا۔ پشاورپولیس کے مطابق فائرنگ واقعہ کے وقت انچارج نورالحق، کانسٹیبل فیروز، واجد، سیار اور ڈرائیور فرمان ڈیوٹی پر موجود تھے جبکہ فائرنگ سے دو پولیس اہلکار شہید اور دو اہلکار زخمی ہو گئے، جاں بحق پولیس اہلکاروں کی شناخت ہیڈ کانسٹیبل امجد اور ڈرائیور فرمان کے ناموں سے ہوئی ہے جبکہ زخمی اہلکار فیروز اور سیار خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس واقعہ کی اگلی صبح جمعرات کو باڑہ بازار تحصیل کمپائونڈ میں خودکش حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کی جبکہ دھماکوں کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 11 زخمی ہو گئے۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زخمیوں کے عیادت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کے دوران آئی جی پولیس خیبرپختونخوا اختر حیات خان نے بتایا کہ گزشتہ روز 2 دہشتگردوں نے باڑہ تحصیل کمپائونڈ میں گھسنے کی کوشش کی اور پولیس کو نشانہ بنایا تاہم انٹیلی جنس ادارے کی 13 جولائی کی رپورٹ کی بنیاد پر سیکورٹی پہلے سے ہائی الرٹ تھی اور دہشتگردوں کو اپنے مزموم عزائم میں ناکام بنایا گیا۔ آئی جی پی نے بتایا کہ دہشتگردوں نے باڑہ تحصیل کمپلیکس پر دو اطراف سے حملہ کیا، ایک دہشتگرد نے مرکزی اور دوسرے نے عقبی دروازے سے گھسنے کی کوشش کی جس پر باہر کھڑے اہلکاروں نے ایک دہشتگرد کو پہلے ہی مار دیا جبکہ دوسرے زخمی خودکش نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا تھا اور 7 سے 8 منٹ میں دونوں دہشتگردوں کو پسپا کیا گیا۔
مربوط حکمت عملی اور بروقت اطلاع نے خیبر کو بڑی تباہی سے بچایا۔ انہوں نے بتایا کہ پشاور اور خیبر میں تین واقعات مسلسل ہوئے ہیں، پہلے ایف سی اہلکاروں پر حملہ ہوا، پھر ریگی ماڈل ٹائون میں پولیس پر فائرنگ کی گئی اور اب یہ تیسرا واقعہ ہے۔ ایف سی پر حملے میں پیشرفت ہوئی ہے جس سے متعلق جلد حقائق سامنے لائے جائینگے۔
آئی جی اخترحیات نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے واقعات نہ ہو اگر ہو بھی تو اس کو جلد از جلد روک لیا جائے۔ رواں سال دہشتگردی کا بڑا واقعہ پولیس لائنز پشاور میں پیش آیا، فروری، مارچ اور اپریل میں واقعات میں کمی آئی۔ دہشتگردی کے واقعات روکنا پولیس کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، پولیس نے اپنی اور معاشرے کی حفاظت کرنی ہے، صوبے میں 1 لاکھ 26 ہزار پولیس نفری ہے تاہم نفری سے زیادہ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ بھی مکمل نہ ہوسکا جس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ہمیشہ اپنی جانوں پر کھیل عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا، پولیس کو اس وقت صرف ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  سابق وزیر خارجہ کو بلو رانی کہنے پر مجھ پر کیس بنایا گیا ہے، شیخ رشید احمد