واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے

میری ناقص رائے میں اس ملک کو تین اہم مسائل کا سامنا ہے، سب سے پہلے ہم نے مذہب کی اپنی مرضی سے جو چاہے تعریف کی ہے دوسرا بڑا مسئلہ ہماری خود غرضی اور تیسرا آبادی کا ایٹم بم ہے، مؤخر الذکر دونوں دراصل اول الذکر یعنی مذہب کے ذیل میں ہی آتے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ ہمارے خیال میں ہمارے ہر مسئلے کا سبب مذہب سے دوری ہے لیکن میں اس سے اختلاف کی جسارت کرتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں ہم مذہب سے دور نہیں بلکہ مذہب کی اصل صورت ہم سے کہیں دور رہ گئی ہے، اور اگر علم اور جدید سائنس کے میدان میں ترقی کرنا ہے تو آگے سے آگے بڑھنا ہو گا اور اگر مذہب کو سمجھنا اور اس کا درست استعمال کرنا ہے تو پیچھے سے پیچھے جانا ہوگا یہاں تک کہ آپ اس کے اصل منبع اور مصدر تک پہنچ جائیں، قارئین کرام، پہلے انسان کو ہی پیغمبر بنا کر انسانی زندگی میں مذہب کی اہمیت کو واضح کر دیا گیا تھا اور ہم سب جانتے ہیں کہ مذہب ہر مسلمان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں انتہائی اہمیت کاحامل ہے، جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے تب سے انسان اور مذہب ساتھ ساتھ ہیں، ابتدا میں تمام انسانوں کا مذہب ایک تھامگر جوں جوں انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا لوگ مذہب سے دور ہونے لگے پھر خالق کائنات نے مختلف ادوار میں انسانوں کی راہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے لیکن پیغمبروں کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے ان کے پیغام پر عمل کرنے کی بجائے خود سے نئے دین اور مذاہب اختیار کر لیے مذہب انسانی فطرت کی بنیادی ضرورت ہے اور یہ انسانی فطرت کے عین مطابق بھی ہے اسی لئے تمام مذاہب کی تعلیمات میں قتل، چوری، زنا، جنگ وجدل، جھوٹ اور دیگر برائیوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور تمام اچھائیوں کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے، مذہب کا مقصد انسان اور سماج کو اطمینان وسکون دینا ہے، اعلیٰ اخلاقیات کو یقینی بنانا ہے، حقوق وفرائض کا تعین اور انتظام کرنا ہے، باہمی احترام اور امن و سلامتی کی ضمانت دینا ہے، تہذیب ومعاشرت کی بہترین اصلاح کرنا ہے، اپنے ماحول اور حتیٰ کہ جانور وں کے حقوق کا بھی تحفظ کرنا ہے اور جب یہ سب نہ ہو رہا ہو تو سمجھ لیں کہ مذہب اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہے اور اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں اول یہ کہ مذہب کی بنیادی تعلیمات میں تحریف ہو گئی ہے یا پھر مذہب پر عمل نہیں ہو رہا اور ہمارے معاملے میں پہلی بات ہے، جب عدی ابن حاتم تک آپ کی دعوت پہنچی تو وہ شام کی طرف بھاگ نکلے، یہ صاحب جاہلیت میں عیسائی بن گئے تھے، ان کی بہن اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ گرفتار ہوئی، تو آپ نے ان کے ساتھ بہت ہی کریمانہ برتاؤ کیا اور اسے عطیات دئیے، یہ اپنے بھائی کے پاس واپس گئی اور اسے آمادہ کیا کہ وہ مدینہ جائیں، جب حاتم طائی کے فرزند آپ سے ملے ان کے گلے میں سونے کی صلیب تھی اور آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے کہ انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا، عدی نے سوال کیا کہ عیسائی تو ان کی عبادت نہیں کرتے، تو آپ نے فرمایا یہ درست ہے کہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے، لیکن انہوں نے ان کے لیے حلال اور حرام کی حدود خود متعین کی ہیں اور لوگ اس معاملے میں ان کی اطاعت کرتے ہیں لہذا یہ ان عوام کی طرف سے ان کی بندگی ہے، (تفسیر ابن کثیر)، آج بھی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے، لوگ دین میں مرضی کی تحریف اور تشریح کرتے ہیں جس میں ذاتی افکار اور پسندیدہ نظریات شامل ہوتے ہیں، اصل دین نہ کوئی کسی کو بتاتا ے اور نہ ہی کسی کے پاس وقت ہے کہ اس بارے میں غوروفکر کرے، جس نے مانا اس کے لئے جنت کی بشارتیں ہیں اور انکار کرنے والوں کے لئے دوزخ کا عذاب، اور یہ معاملہ صرف ملا کا نہیں بلکہ جہاں جس نے اپنی مرضی کی بات منوانی ہو وہیں مذہب کا سہار ا لیا جاتا ہے، اولاد مرضی سے شادی کرنا چاہے تو مذہب کا سہارا، والدین کے حقوق کی بات تو پھر مذہب، جوانی جیسے دل چاہا گزاری، پچاس ساٹھ کو پہنچے تو ہر بات میں مذہب، ایک شخص نے کسی عالمہ سے شادی کر لی، عالمہ نے کہا کہ ہم شریعت کے مطابق زندگی بسر کریں گے، بہو پر ساس سسر کی خدمت واجب نہیں اور شریعت کے مطابق شوہر کو بیوی کے لئے علیحدہ گھر کا بندوبست کرنا ہوتا ہے، شوہر پریشان ہو گیا کہ علیحدہ گھر کہاں سے لائے اور بوڑھے والدین کو اکیلے کیسے چھوڑ ے، شوہر مفتی صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ تمہاری بیوی کا مطالبہ بظاہر شرعی ہے لیکن وہ مذہب کی آڑ میں الگ گھر اور والدین کی خدمت سے جان چھڑانا چاہتی ہے لہذا تمہیں بھی مذہب کا استعمال کرو اور بیوی سے کہو کہ مذہب میں دوسری شادی کی اجازت ہے، میں بھی کرتا ہوں تاکہ دوسری خاتون میرے والدین کے ساتھ رہے اور والدین کی دیکھ بھال میں میری مدد کرے، بیوی فوراً بولی دفع کرو الگ گھر کو، میں ادھر ہی تمہارے والدین کیساتھ رہوں گی، ان کی خدمت کروں گی کیوں کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنابھی ہمارے مذہب میں شامل ہے مذہبی طبقہ جب سوشل میڈیا کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ جی قرآن سے ثابت کرسکتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال شیطانی ہے، اور تو اور ایک بہت بڑے عالم دین کہ جن کی مالی حالت بہت خراب تھی اور اب جب کہ وہ ارب پتی ہیں ان سے اس دولت کے ذرائع کے متعلق پوچھا گیا تو جواب دینے کی بجائے کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے غیبی مدد ہے، حبیب جالب نے کیا خوب صورت عکاسی فرمائی ہے
مفلس جو اگر تن کی قبا بیچ رہا ہے
واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے
دونوں کو ہے درپیش سوال اپنے شکم کا
ایک اپنی خودی، ایک خدا بیچ رہا ہے
قارئین کرام اگر ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر بنیادی انسانی اقدار مثلاً رواداری، محبت، بھائی چارہ، درد مندی، در گزر، احساس، خدمت، احسان، مروت، پردہ پوشی، ایثار، قربانی جیسی صفات سے محروم ہیں تو یاد رکھیں ہماری زندگیوں میں مذہب کا کوئی بھی مثبت کردار نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا