واقعہ سیالکوٹ پر ہم سب شرمندہ ہیں

میرے ایک دوست نے مجھے کئی سال پہلے اپنا ایک واقعہ سنایا تھا کہ میںایک دفعہ اپنی ڈیوٹی سے فلائنگ کوچ کے ذریعے گھر واپس جا رہا تھا ،راستے میںایک جگہ عوام نے روڈ بند کیا ہوا تھا، ہماری گاڑی بھی اس میں کئی گھنٹے تک پھنسی رہی، گاڑیوں میں سب مسافر انتظار کی وجہ سے تنگ اور پریشان تھے، میں نے ارادہ کیا کہ احتجاج کرنے والوں سے پوچھوں کہ کیا مسئلہ ہے کہ جس کی وجہ سے انہو ں نے روڈ بند کر رکھا ہے۔ پتا چلا کہ عوام حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ،حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے روڈ بند کیا ہوا ہے۔اس نے کہا کہ میں احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوا اور ان سب لوگ سے التجا کی کہ آپ روڈ کھولیں، گاڑیوں میں بچے، مرد، عورتیں، بوڑھے اور بیمار موجود ہیں ،وہ چیخ رہے ہیں، یہ بات میں نے ختم نہیں کی تھی کہ اس دوران ایک شخص نے آواز دی کہ یہ حکومتی کارندہ ہے، اس کو مارو۔ ہر طرف سے لوگ مجھ پر جھپٹ پڑے۔ مجھے بے دردی سے مارا حتی کہ زمین پر گرا دیا، میرے کپڑے بھی پھاڑ دئیے،مجھے اتنا مار ا کہ مجھے سانس لینے میں دقعت محسوس ہوئی۔ اس دوران پولیس وہاں پہنچ گئی اور میری جان بچا ئی۔ پولیس نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور مجھے میری گاڑی تک پہنچانے کا ارادہ کیا تو میں نے ان سے عرض کی کہ آپ مہربانی کرکے پہلے مجھے ہسپتال لے جائیں، تو وہ مجھے پہلے ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹر نے میرا معائنہ کیا اور دوائی تجویز کی۔
یہ واقعہ کسی عام شخص کے بلکہ ایک معزز شخص اور سرکاری آفسر کے ساتھ پیش آیا تھا۔تو آپ سوچئے کہ بغیر تحقیق کے ان افراد نے ایک معزز شخص پر اتنا ظلم کیا۔
آپ دیکھیں اس نوعیت کے واقعات ہر روز رونما ہوتے ہیں، اب حال ہی میں دوایسے سانحات رونما ہوئے ہیں جو پوری دنیا میں ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنے ہیں۔
پہلا واقعے میں چارسدہ میں ایک شخص پر الزام لگایا گیا کہ اس نے قرآن کریم کو جلایا ہے ،بعض افراد نے اس کو پولیس کے حوالہ کیا لیکن دوسرے
مشتعل افراد نے تھانے پر دھاوا بولا  اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے تاکہ ہم خود اس کو سزا دیں۔ تاہم پولیس نے اس کو مشتعل ہجوم کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد مشتعل ہجوم نے تھانے پر دھاوا بول دیا، اس کی دیواروں کو منہدم کیا اور تھانہ کے اندر کھڑی گاڑیوں کو نذر اتش کیا۔پورے علاقے میں پولیس کی چوکیاں نذر آتش کیں۔ مقامی علماء نے ان افراد سے کہا کہ اسلام ہمیں اس بات کا درس ہمیں نہیں دیتا کہ آپ عوام کے جان و مال کو نقصان پہنچا ئیں ،قرآن کی تعلیمات واضح ہیں کہ مجرم پر جرم ثابت کرنے کے لیے باقاعدہ گواہ پیش کرنا ضروری ہے۔ ملزم پر مقدمہ درج کرنے کے بعد باقاعدہ ایک مخصوص طریقہ کار سے گزرتے ہوئے جج فیصلہ سناتے ہیں۔ اس واقعے کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دوسرا واقعہ سیالکوٹ میں پیش آیا، جہاں ایک کارخانے کے منیجر جن کانام پریانتھا کمارا تھااور اس کا تعلق سری لنکا سے تھا، اسے کارخانے کے ملازمین نے بے دردی سے قتل کیا، صرف قتل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے جسد خاکی کو آگ بھی لگائی جس سے وہ جل گیا، اس واقعے کو لوگوں نے توہین رسالت کا رنگ دیا۔
معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی صاحب نے سیالکوٹ کے واقعے پر بیان جاری اپنے بیان میں کہا کہ توہین رسالت بلاشبہ انتہائی سنگین جرم ہے لیکن ملزم سے اس ارتکاب کا ثبوت بھی اتنا ہی مضبوط ہونا ضروری ہے۔کسی پر اس طرح کا سنگین الزام لگا کر خود ہی اسے وحشیانہ اور حرام طریقے سے سزا دینے کا کوئی جواز اسلام سے ثابت نہیں ہے۔
اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء نے سری لنکن ہائی کمیشن کے ساتھ ملاقات کی ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کی۔  بعد میں تمام علمائے کرام نے پریس کانفرنس بھی کی جس میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے انگریزی اور اردو زبان میں فرمایا کہ واقعہ سیالکوٹ پر ہم سب شرمندہ ہیں، ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے اور مرحوم کے ورثا کو مناسب معاوضہ بھی دیا جائے۔
اس قسم کے واقعات سے طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ یہ واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ اس میں غلطیاں کس کس کی ہیں؟
یہ سب سوالات اور ان کے جوابات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہاں قانون کی بالادستی نہیں ہے ،ہر شخص آزاد ہے، جس کے دل و دماغ میں جو بات بھی آتی ہے وہ اسے مختلف ذرائع جیسے سوشل میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات میں بغیر خوف و خطر بیان کرتا رہتا ہے۔ جھوٹ سچ کی کوئی تمیز نہیں ہے، جھوٹی و من گھڑت خبروں پر کوئی سزا وجزا کا قانون نہیں ہے، اگر قانون ہے بھی تو اس پر عمل دارآمد نہیں ہے،کوئی بھی شخص اپنی حدود میں نہیں ہے۔ کسی میں صبر ،دلیل، منطق،حکمت، نرمی، رحم اور خیر خواہی موجود نہیں ہے ،ہر کوئی سنی سنائی باتوں پر عمل کر رہا ہے، ہر فرد بذاتِ خود قاضی اور مفتی بن کر فیصلے کررہا ہے، اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔
یہاں مختلف تنظیمیں موجود ہیں ،ان کے لیے حکومت کی طرف سے واضح اصول و قواعد نہیں ہیں کہ جن کے تحت وہ چلیں۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اپنے کارکنوں کو عدم تشدد، رحم، اور نرمی سے پیش آنے کے واضح پیغام نہیں دیتے۔ بعض سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کی ہر جائز وناجائز بات میں سفارش کرتے اور حکومتی اداروں پر رعب جماتے ہیں۔حکومت اس قسم کے فسادات کی روک تھام میں بے بس نظر آتی ہے۔
آئیں تمام پارٹیوں کے لیڈر اور حکومت متفقہ طور پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فیصلہ کریں اور جن قوانین میں سقم ہے اسے پارلیمنٹ کے ذریعے سے دور کیا جائے۔ علاوہ ازیں عدلیہ اپنے فیصلوں میں تیزی لائے اور انصاف کی ترسیل کو یقینی بنائے تو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ یہ ملک امن کا گہوارہ بنے۔ پھر ان شاء اللہ اس قسم کے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد