وجہ جرم بڑا جرم تھا جو میں نے کیا تھا

اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ‘ ایک بار پھرملک میں چھٹیوں کا پھڈا پڑا ہوا ہے ‘ یعنی جب سے موجودہ حکومت آئی ہے او وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے میں دو چھٹیوں کا سلسلہ ختم کرکے ماضی بعید کی طرح صرف ایک ہفتہ وار چھٹی صرف اتوار کے روز کرنے اور ساتھ ہی سرکاری دفاتر کے اوقات کار میں تبدیلی کرتے ہوئے پانچ بجے کے بجائے اوقات کار تین بجے تک محدود کرنے کا حکم جاری کیا ہے بعض حلقے اس پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو ہفتے میں دو چھٹیوں کے عادی ہو چکے ہیں اور اب ان سے ایک اضافی دن دفاتر وغیرہ آنا ناگوارلگتا ہے’ حالانکہ چند برس پہلے تک یہی صورتحال تھی اور ہفتے میں صرف ایک دن یعنی ا توار کے روز سرکاری چھٹی ہوتی تھی’ خود ہم اپنی ملازمت کے تیس برس میں آخری پانچ سات برس جب دو چھٹیوں کا آغاز کیا گیا ‘ ہفتے میں صرف ایک روز تعطیل کیا کرتے تھے (ذاتی طور پراگرچہ راقم کئی برس تک ایک بھی چھٹی نہیں کر سکا کیونکہ ریڈیو کی ملازمت ہی ایسی ہے جہاں آج کے نئے فارمولے 24/7 کے تحت روزانہ پروگرام نشر کئے جاتے ہیں اس لئے ہم تو برس ہا برس تک عید کے روز بھی پروگرام نشر کرنے کے لئے ریڈیو سٹیشن پر موجود ہوتے تھے کہ ہماری ڈیوٹی ہی ایسی تھی بہرحال اب حافظہ ساتھ نہیں دے رہا کہ یہ دو ہفتہ وار چھٹیوں کا نظام کس حکومت کے دور میں شروع ہوا تھا ‘ بعد میں جب یہودیوں نے اپنے معاشی پھندہ استبداد میں دنیا کو جکڑا تو انہوں نے موسوی نظریئے کے تحت (سبت) یعنی ہفتے کے روز چھٹی کرنے پر دنیا کو مجبور کیا(یاد رہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی امت کو اللہ رب العزت نے ہفتہ کے روز مچھلی کے شکار سے منع کیا تھا مگر انہوں نے نافرمانی کی اور اس حکم عدولی کی سزا بھگتی ‘ نافرمانوں کو اللہ نے بندر بنا دیا ۔ اس کے بعد ان کے ہاں ہفتہ کے روز کی اہمیت مسلم ہو گئی ‘ اس کے بعد ان ممالک میں بھی اس کی تقلید کی جانے لگی کیونکہ دنیا بھر میں نہ صرف بنک بلکہ سٹاک مارکیٹ بھی ہفتہ اور اتوار کے دونوں دنوں میں کاروبار کرنے کو آمادہ نہ ہو سکے ‘ اور عالمی سطح پر تجارتی روابط اور سودے بھی ان دونوں دنوں میں کرنا بند کر دیئے گئے اور جہاں تک ترقی پذیر اور غریب ملکوں کا مسئلہ تھا وہ ان ترقی یافتہ ممالک اور ان کے بنائے ہوئے مالیاتی اداروں کے شکنجے میں کچھ اس طرح پھنسے ہوئے تھے کہ ان کو اڑنے کی سکت ہی نہیں تھی یعنی بقول شاعر
ہم کو اڑنے میں کیا قباحت تھی
بات اتنی کہ بال وپر ہی نہ تھے
پاکستان میں چھٹیوں میں تبدیلی کی صورتحال سب سے پہلے بھٹو مرحوم کے دور کے آخری دنوں میں دیکھنے کو ملی جب ان کی مخالف سیاسی جماعتوں نے ان پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر تحریک شروع کی اور ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے مطالبات کئے ‘ بھٹو مرحوم نے اس تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ‘ اس صورتحال کا توڑ کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جانب ملک میں شراب پر پابندی لگائی اور دوسری جانب اتوار کے بجائے جمعتہ المبارک کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپنی تحریک ختم نہیں کی’ اس نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا اعلان ضرور کیا اور ساتھ ہی بھٹو کے اعلان کے مطابق شراب پرپابندی اور جمعہ کی تعطیل کو برقرار کھا ‘ تاہم بعد میں جب جمعہ کی چھٹی کی جگہ ہفتہ اور اتوار کو سرکاری چھٹیاں قرار دی گئیں تو ایک دینی سیاسی جماعت نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ‘ اس جماعت نے آج تک یہ مطالبہ ترک نہیں کیا ‘ بلکہ اب بھی اس کی یہی کوشش ہے کہ جمعہ کی چھٹی بحال کر دی جائے ‘ لیکن ایک تو اس طرح عالمی مارکیٹ سے پاکستان تین دن تک کاروباری سرگرمیوں سے محروم رہے گا ‘ کیونکہ عالمی سطح پر تو ہفتہ اور اتوار پہلے ہی چھٹی منائی جاتی ہے جبکہ جمعہ کو تعطیل کے اعلان سے پاکستان میں مالیاتی ادارے ‘ بنک اور سٹاک مارکیٹ تین دن تک بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات پر شدید منفی اثرات پڑیں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے جو رہنما اصول ہمیں دیئے ہیں ا ن میں ایک ”کام ‘ کام اور بس کام” اہمیت کاحامل ہے اور جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام میں چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ‘ بلکہ جمعہ کے روز کے لئے یہ رہنما اصول ہے کہ نماز جمعہ کی اذان ہوتے ہی سب کاروبار بند کر دو ‘ اور باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے تیاری کرو ‘ نماز کے بعد رزق کی تلاش کے لئے معاشرے میں پھیل جائو اور اللہ تعالیٰ سے رزق میں برکت کے طالب بنو(مفہوم) چند برس پہلے عالمی مالیاتی نظام کے تتبع میں پاکستان میں بھی دو ہفتہ وار چھٹیوں کا اطلاق کیا گیا مگر ایک تو یہ بابائے قوم کے اصولوں کی نفی تھی ‘ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ ضروری تھا بھی تو اس کو صرف بنکوں ‘ مالیاتی اداروں اور سٹاک ایکسیچنج پر لاگو کرکے باقی دنوں میں ان کے لئے ٹائمنگ کا شیڈول دے کر پورے ہفتے کے دنوں کی کارکردگی مانگنی چاہئے تھی اور دوسرے سرکاری دفاتر کو معمول کے مطابق چلانا چاہئے تھا ‘ مگر اس کے برعکس(بیورو کریسی) کی ایماء پر اور انہیں زیادہ سے زیادہ ”آرام” دینے کے لئے اس کا اطلاق پورے پاکستان پر کیا گیا’ جو زیادتی تھی ‘ اس لئے وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتہ کی چھٹی ختم کرکے درست اقدام اٹھایا ہے اور سرکاری ملازمین میں جس آرام طلبی نے انہیں ناکارہ بنایا ہے اس کا تدارک ہو گا۔ بعض لوگ اسے مغرب کی تقلید میں ہفتے میں (صرف تین دن) کی کارکردگی پر زور دے کر یہ توجیہہ دے رہے ہیں کہ زیادہ آرام سے وہاں کے ملازم زیادہ مستعد ‘ چاق و چوبند ہو کر کام کرتے ہیں ‘ تاہم وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان ممالک میں دولت کی جو ریل پیل ہے اس کی وجہ سے وہاں اوسط آمدنی کا معیارکیا ہے؟ جبکہ ہمارے ہاں تو لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندہ رہنے پر مجبور ہیں ‘ ان کو بجائے محنت کرنے کے آرام طلبی پر اکسانا ملک و قوم کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے ۔
وہ جرم بڑا جرم تھا جومیں نے کیا تھا
اک روز ترے شہر میں سچ بول دیا تھا

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے