dr. dost muhammad 11

وراثت میں آئی ہے مسند ارشاد

پاکستان کے ابتدائی دو عشروں کے بعد تعلیم کبھی بھی ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہ ہوسکی۔ابتدائی دو تین عشروں کو اس لئے مستثنیٰ کیا کہ قیام پاکستان کے بعد پہلی تعلیم یافتہ نسل کی تعلیم وتربیت متحدہ ہندوستان کے اُن اداروں میں ہوئی تھی جن کے پیچھے انگریزوں اور ہندئوں اور مسلمان علماء اور دانشوروں کا ایک خاص کردار تھا۔علی گڑھ، دیوبند، کلکتہ، بمبئی اور دہلی ولکھنو اور لاہور کے تعلیمی ادارے،کالج اور جامعات کا بہر حال ایک معیارتھا لیکن قیام پاکستان کے بعد وہ ادارے جو انگریز کے بنائے ہوئے یا پاک افواج کے زیر نگرانی رہے اور ہیں ضرور اپنا معیار برقرار رکھنے میں کامیاب رہے کیونکہ اُن کا مقصد ہی متعین تھا اور وہاں کے فارغ التحصیل افراد کی انگریزوں اور ہماری افواج کی اپنی ضرورت تھی۔لیکن عوام کے لئے2فیصد اور پھر بڑھا چڑھا کر4 فیصد بجٹ میں جو کچھ ممکن تھا وہ آگے بڑھتا رہا اور کلرک بادشاہ پیدا ہوتے رہے میںکبھی سوچتا ہوں کہ آخر قیام پاکستان کے بعد اکا دکا شخصیات کو چھوڑ کر عام طور پر متحدہ ہندوستان کے وقت کی طرح علمی واخلاقی لحاظ سے بلندلوگ پیدا ہونا کیوں بند ہوگئے کیوں قحط الرجال پیدا ہوا کیوں بڑے لوگوں کو تلاش کرنے چراغ رُخ زیبالیکر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی ۔کیوں مختار مسعود کو قحط الرجال؟جیسا طویل مضمون لکھنا پڑا۔اس کا ایک سبب سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ کہ حکومتی حلقوں اور قومی سطح پر تعلیم ہماری ترجیحات میں اُس اہمیت کی حامل ہی نہیں رہی جس طرح اٹھارہویں صدی سے تاحال مغربی اقوام کے ہاں رہی۔
پاکستان میں آبادی بڑھتی رہی ،وسائل بڑھنے کے باوجود مختلف وجوہات کی بناء پر جس میں سب سے بڑی وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور گردش ہے،سمیٹتے رہے اور آج وہ وقت ہے کہ کروڑوں افراد خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے کے سبب دو وقت کی روکھی سوکھی کی تلاش میں تعلیم کے نام ہی سے انجان رہے۔اس پر مستزاد حکومت اپنے محدود وسائل کے سبب عوام کومعیاری تعلیم فراہم کرنے سے ہر دور میں قاصر رہی اس کا فائدہ اشرافیہ نے دو طرح سے اُٹھا یا ایک اس طرح کہ تعلیم کو تجارت اور انڈسٹری کی شکل دے کر سرمایہ کاری کا شعبہ بنایا اور اس میں دولت بنائی اور دوسرا اس طرح کہ اشرافیہ کے وہ بچے جو میرٹ پر پروفیشنل کالجوں میںداخلہ پانے سے محروم رہے اُن کے لئے مغربی ناموں کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں ادارے میسر آئے اور وہاں سے پیسے کے زور پر ڈگریاں حاصل کرکے وطن عزیز میں اعلیٰ مناصب کے حقدار ٹھہرے اور غریب پھر دیکھتے رہ گئے لیکن خیر یہ تو وہ داستان ہے جو امیر اور غریب کے درمیان صدیوں سے چلی آرہی ہے لیکن اس کرونا نے بھی غریب ہی کی روزی روٹی پراثر انداز ہونے کے علاوہ اُن سے کتابیں اور سکول کالج بھی چھین لئے کورونا کے سبب تعلیمی اداروں کی بندش مجبوری ہے انسانی جانوں بالخصوص نئی نسلوں کی حفاظت بہت ضروری ہے لیکن یہاں بھی غریب مارا گیا امراء کے بچوں کے تعلیمی اداروں میں ساری جدید سہولیات دستیاب ہیں اور سکول وغیرہ بند ہونے کے باوجود تعلیمی سلسلہ بہرحال جاری ہے اورآن لائن کلاسوں کے بعد وقت پراُن کے آن لائن امتحانات بھی ہو جائیں گے لیکن گورنمنٹ سکولوں اور کالجوں میں”کچھ گندم گیلی اور کچھ چکی خراب”کے مصداق نہ اساتذہ دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ اُن کو انٹر نیٹ اور موبائل وغیرہ کی سہولیات فراہم ہیں۔نتیجہ وہی ڈھاک کے تن پات اساتذہ اور غرباء کے بچے سب خوش وخرم بچے کھیل کود اور نوجوان آوارہ گردی میں مشغول ہیں۔آٹھ مہینے کے تعطل کے بعد جو امتحانات اور نتائج ہوں گے اُن کا معیار اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔لہٰذا یہ کورونا اس لحاظ سے تو تاریخ کا حصہ بن ہی گیا ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں انسانی جانوں کا اتلاف ہوا اور اربوں کھربوں ڈالر کی معیشتیں ڈوب گئیں لیکن پاکستان جیسے ملکوں کے تعلیمی میدانوں میں جو طوفان برپا ہوا اس کا نتیجہ بہت جلد اس صورت میں نکلے گا کہ حکومت چندے کے لئے اشرافیہ کے چار پانچ فیصد افراد، کروڑوں کی آبادی میں سے حکمران اور امراء وزراء ٹھہرکر منتخب ہوں اور باقی آبادی غلام ابن غلام اور محکوم درمحکوم کی صورت میں ویسے ہی رہیگی جیسے صدیوں سے چلی آرہی ہے ۔اس لئے ہماری دعا ہے اور اللہ تعالیٰ سے استدعا ہے کہ پروردگار یہ کورونا جلد از جلد ختم ہوتا کہ ہمارے سیاستدانوں اور اشرافیہ کو کورونا کی آڑ میں مختلف مقاصد واغراض پورا کرنے کے مواقع میسر نہ ہوں ورنہ مسلمانوں کے ہاں تو ویسے بھی عموماً اور پاکستان میں خصوصاً اعلیٰ مناصب بھی وراثت میں ملتے ہیں۔علامہ اقبال نے یہی تو فرمایا تھا۔
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے