وردی پوش قانون شکن

مینگورہ کے پولیس تھانہ بنڑ کے اندر طالب علم عبید خان کے قتل کے حوالے سے جوتفصیلات سامنے آئی ہیں یقین نہیں آتا کہ پولیس میں اس طرح کے کرداروں کی موجودگی بھی ہوسکتی ہے جو از خود قانون اور پولیس فورس کے نظم وضبط کے لئے خطرات کا باعث ہوں۔ ملزم نے مبینہ طور پر بغیر کسی جرم کے طالب علم عبید خان کو گرفتار کیا اور تھانہ بنڑ لے جاکر تھانہ کے اندرگولی مار کر قتل کردیا تھا۔ ملزم کو بعد میں پولیس کے سیف ہاؤس میں رکھا گیا تھا تاہم عوامی دبائو کے نتیجے میں اس نے گرفتاری دی۔ معلوم ہوا ہے کہ اس نے تھانہ کانجو کے بیسمنٹ میںٹارچر سیل بھی بنا رکھا تھا جہاں وہ بے گناہ افراد کو رکھتا تھا۔تفصیلات حیران کن ہیں جن کی روشنی میں سب سے پہلا سوال ہی یہ اٹھتا ہے کہ ا نہوں نے طالب علم کو کس حیثیت سے گرفتار کیا اور ان کے افعال سے کیا پولیس کے اعلیٰ حکام لاعلم تھے یا پھر صرف نظر کی پالیسی ا ختیار کی گئی اعلیٰ حکام کی لاعلمی کا امکان بہرحال موجود ہے لیکن تھانوں اور سرکل کی سطح کے پولیس افسران کویقینا اس کاعلم تھا اگر نہیں تھا توپھر ان کی لاعلمی اور بے خبری قابل معافی نہیں بہرحال پولیس کا چہرہ اس واقعے سے جس طرح داغدار ہوا ہے اور پولیس کاجو کردار سامنے آیا ہے اس پر عوام کااشتعال فطری امر ہے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ پولیس نے سنگین الزام کے باوجود ملزم کو بچانے کی سعی کی سوات کے عوام کا اتحاداور اپنے حقوق بارے سنجیدگی کے جو کچھ مناظر قبل ازیں سامنے آچکے ہیں اس کے تناظر میں اب وہاں انصاف اور قانون کے برعکس اقدامات پربرداشت کی صورتحال منفی گرداننا غلط اندازہ نہ ہوگا۔ اب جبکہ عوامی دبائو پر صورتحال کی سنگینی سامنے آچکی ہے تو اب پولیس اور قانون دونوں کو اپنا کردار جلد نبھانا چاہئے ادارہ جاتی طور پر ملزم کے خلاف ہی نہیں بلکہ پورے سرکل کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئے جبکہ محولہ واقعے میں اس کے ملوث ثابت ہونے پرسخت سزا ہونا یقینی ہے پولیس چیف اور ماتحت اعلیٰ افسران کواپنے زیر ا نتظام فورس میں ڈسپلن کی پابندی اور کالی بھیڑوں کی تطہیر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے عناصر کی سرگرمیوں سے بروقت باخبر ہو سکیں۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام