3 381

وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں؟

سب کہاں کچھ لالہ وگل میںنمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
ہیہات،ہیہات! یہ وقت بھی دیکھنا تھا کہ دل کے قریب بہت ہی پیارے دوستوں کی یکے بعد دیگرے، ایک ایک دو دو روز کے فرق سے سفر آخرت پر روانگی کے سمے ان کے جنازوں میں شرکت بھی نہ کرسکے، عام صورتحال ہوتی تو ضرور حاضری دے کر، جنازوں کو کندھا دے کر دل کو تسلی دے دیتے کہ یاروں کی روحوں کو سکون مل گیا ہوگا، مگر ایک تو اس کم بخت، وباء نے مخمصے میں ڈال رکھا ہے، اوپر سے ہماری اپنی عمر بھی اب اس مقام پر ہے جہاں معالجین نے احتیاط کے تمام تر تقاضے پورے کرنے کی تلقین کر رکھی ہے، سو ہمارا زیادہ وقت اب گھر کے اندر (بلاوجہ) خود کو محفوظ رکھنے کا متقاضی ہو چکا ہے جبکہ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران تین دہائیوں سے کچھ اوپر ہی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ وقت گزارتے ہوئے جو محبتیں ان باکمال دوستوں کے سنگ آپس میں بانٹتے رہے، ان کے تقاضے کچھ اور تھے مگر خدا جانے یہ کیسا وقت آپڑا ہے کہ بندہ دوستوں کو تو رکھئے ایک طرف، قریبی عزیزوں رشتہ داروں تک سے ملنے کیلئے ترستا ہے بلکہ وہ جو کہتے ہیں کہ جس تن لاگے، سو تن جانے، اگر کبھی(اللہ نہ کرے) آپ کو یہ تجربہ ہوچکا ہو کہ آپ کے اپنے ہی گھر میں کسی ایک کواس ناگفتہ بہ صورتحال سے گزرنا پڑا ہو کہ اسے پازیٹو،نیگٹیو والے بیانیوں کا پابند کر کے کوارنٹائن کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہو تو خود گھر کے مکین اس کے قریب آنے کو ترس جاتے ہیںیعنی گھر والوں کیلئے پائے رفتن نہ جائے ماندن والی کیفیت بن گئی ہو، اس لئے اللہ سے ہر دم معافی طلب کرنی چاہئے کیونکہ اب کی بار اس تیسری لہر نے جو صورتحال بنا دی ہے، اس کی وجہ سے ہر شخص گھبرایا ہوا دکھتا ہے۔ ایسی صورت میں انتہائی قابل احترام دوستوں کے جنازوں میں شرکت نہ کرسکنے کا جو دکھ دامنگیرہوتا ہے اور بندہ جس کرب سے دوچار ہوتا ہے وہی کیفیت ان دنوں میری ہے، بس دعائوں کا سہارا ہی رہ گیا ہے جو دوستوں کیلئے دل کی گہرائی سے نکل رہی ہیں، اگرچہ بقول شاعر
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کھل ہماری باری ہے
تاہم اُمید پر دنیا قائم ہونے کے فلسفے نے ہر شخص کو زندہ رکھا ہوا ہے کہ موت کا پتہ نہیں چلتا، کب کس کا بلاوا آجائے،مگر انتہائی قریبی دوستوں کے جنازوں میں شرکت نہ کرنے سے ”شرمندگی” کا جو احساس ہو رہا ہے اس کیلئے الفاظ کہاں سے لائے جائیں؟ سب سے پہلے نہایت ہی ہنس مکھ، انہتائی بے تکلف دوست عرفان اللہ عرفان کے حوالے سے خبر ملی، عرفان منفرد آواز کے مالک براڈ کاسٹر تھے، جنہوں نے ساٹھ کی دہائی میں ریڈیو پاکستان پشاور سے ناتا جوڑا، عرفان شعبہ نشریات کے اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن میں عبداللہ جان مغموم (مرچکے) جیسے صداکاروں نے جنم لیا، عبداللہ جان مغموم کو ان کی خدمات کے عوض پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ عرفان نے ابتداء تو اناؤنسر کی حیثیت سے کی تاہم بعد میں پہلے سٹاف آرٹسٹ اور پھر پروڈیوسر کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے ترقی کے مدارج طے کرتے چلے گئے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت سٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے تک جاپہنچے۔ اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک عنایت اللہ گل مرحوم بھی تھے جو عرفان اللہ عرفان کے بھانچے اور عبداللہ جان مغموم کے داماد بھی تھے، وہ بھی اپنے دور کے مقبول ترین براڈکاسٹر تھے، ان کا ایک پروگرام تو اس قدر مقبول تھا کہ ان پر پبلک ٹرانسپورٹ والوں نے اپنی بسوں کا نام ”گل شازیہ” بس سروس رکھ چھوڑا تھا، عنایت اللہ گل کیساتھ پروگرام کی دوسری کمپیئر شازیہ نام کی خاتون ہوا کرتی تھی اور دونوں کا یہ پروگرام انتہائی مقبول تھا۔ ابھی عرفان اللہ عرفان کی رحلت کا دکھ سمیٹنے سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور اہم براڈکاسٹر نواب علی خان یوسفزئی کی کورونا سے انتقال کرنے کی اندوہناک خبر نے مزید دکھی کر دیا، یعنی دو دن کے وقفے سے نشریات کی دنیا کا ایک اور نقصان، نواب علی خان کے مجھ پر خصوصی احسانات تھے، اس لئے ان کی یاد بھی ہمیشہ دکھی کرتی رہے گی، وہ میرے اساتذہ میں سے ایک تھے، جن سے نشریات کے رموز ونکات سیکھے، وہ آخر دم تک میرے ساتھ فیس بک پر منسلک تھے اور ایک اچھے مہربان استاد کی مانند میرے کالموں کا مطالعہ کرکے مجھے ہاتھ ہولا رکھنے کی تلقین کرتے رہے، ساتھ ہی وہ میرے کالموں کی تعریف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لیتے بلکہ میری تعریف سے میرا حوصلہ بڑھاتے رہتے، ان کی حوصلہ افزائی میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ نواب علی خان کی رحلت کے مزید دو تین روز بعد ایک اور ہمدم دیرینہ مولانا فضل مولا کے بھی کورونا کے ہاتھوں رحلت کی خبر نے پہلے سے اُداس ہوتی ہوئی صورتحال کومزید گمبھیر کر دیا، فضل مولا صاحب نہایت حلیم الطبع، خوش مزاج، خوش اخلاق اور نفیس انسان تھے۔ تینوں دوستوں کیساتھ کئی دہائیوں تک ایک ساتھ کام کرنے کی یادیں تازندگی تازہ رہیں گی۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ او لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ