2 153

ٹاسک فورس تشکیل سے سمگلنگ کا تدارک

اشیائے خورد ونوش کی افغانستان سمگلنگ روکنے کیلئے ٹاسک فورس کے قیام کی مخالفت ممکن نہیں لیکن سوال یہ ضرور اُٹھتا ہے کہ آیا ٹاسک فوری بنانا ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے یا پھر قوانین پر عملدرآمد کی صورتحال بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ بہرحال ٹاسک فورس میں سول اور عسکری اداروں کے نمائندوں کی شمولیت سے مربوط کارروائی کی توقع ضرور ہے۔ غیرروایتی راستوں سے اشیائے خورد ونوش کی افغانستان سمگلنگ کی روک تھام کے انتظامات سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ افغانستان کیساتھ سرحد سیل کرنے کا عمل ابھی باقی ہے یہی انتظامات غیرقانونی آمد ورفت روکنے کیلئے پہلے بھی کرنے کے دعوے کئے گئے تھے بلکہ غیر روایتی راستوں سے افغانستان سے آمد اور دستاویزی سفر کو تقریباً یقینی بھی بنایا جا چکا ہے، باڑ بھی لگادی گئی ہے، ان انتظامات میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں جس کے بعد صورت ملی بھگت سے اور جعلی دستاویزات کے ذریعے ہی سمگلنگ وبرآمد کا راستہ بچتا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ افغانستان کو آٹا اور مال مویشیوں کی سمگلنگ اتنا بڑا حددرجہ منافع بخش عمل ہے جس میں بااثر عناصر حکومتی، شخصیات اور مختلف اداروں کے حکام یکساں طور پر ملوث رہتے ہیں۔ بنابریں ٹاسک فورس کی بنیادی ذمہ داری آسان بھی ہوگی اور مشکل بھی، غیرروایتی راستوں سے بڑے پیمانے پر سمگلنگ مشکل بھی ہے اور دشوار بھی، ٹاسک فورس اگر روایتی راستوں شاہراہوں اور سرحدی گزرگاہوں پر ہی نگرانی کا نظام سخت کر کے سمگلنگ کی روک تھام کرے تو خیبرپختونخوا میں اشیائے خوردنی کی کمی کا مسئلہ درپیش نہ ہوگا۔ مارکیٹ میں طلب ورسد کا توازن بر قرار رہنے سے قیمتوں میں بھی اعتدال رہے گا۔ جاری صورتحال میں پنجاب سے خیبرپختونخوا کو گندم لانے پر پابندی ہے، علاوہ ازیں بھی حالات کے تناظر میں صورتحال تسلی بخش نہیں، غیرمعمولی حالات کا امکان زیادہ ہے جس کا مقابلہ مناسب پیش بندی اور غیر قانونی ذرائع کی روک تھام سے ہی ممکن ہے۔ ٹاسک فورس کی تشکیل اور اس کی حرکت پذیری سے قبل بھی سرکاری مشینری کو فعال بنانے اور سمگلنگ پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس دورانیہ کا فائدہ نہ اُٹھایا جا سکے۔
مخالفت کے باوجود کلورین کی برآمد کی اجازت کیوں؟
وفاقی کابینہ نے چار وفاقی وزراء کی مخالفت کے باوجود کورونا کے علاج میں استعمال ہونے والی ملیریا کی دوا کلورین برآمد کی اجازت دے کر جس عدم احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے اس کے خدانخواستہ اثر ات خطرناک ہوسکتے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ قبل ازیں ایک موقع پر کلورین کی برآمد پر پابندی لگا دی گئی تھی، پھر اس کی اجازت دیدی گئی ،پھر قد غن اور اب ایک مرتبہ پھر اس کی اجازت دے دی گئی ہے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان کلورین کی برآمد روکنے پر تلخ بیانات کا تبادلہ اور صدر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد اس کی برآمد کی اجازت دیدی گئی، اگرچہ ماہرین کلورین کے استعمال کو کورونا کا علاج نہیں بتاتے لیکن بعض رپورٹس کے مطابق مریضوں کو کلورین کے استعمال سے افاقہ ہونے کی اطلاعات ہیں،بہرحال کچھ تو ہے جس کے باعث اس کی مانگ اچانک بڑھ گئی ہے، پاکستان میں بھی ملیریا کی ادویات کا اچانک ذخیرہ کر کے مہنگی اور ناپید ہونے کی نشاندہی ہوتی رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر اس امر کا امکان تقریباً یقینی ہے کہ ملک میں ملیریا کے بیماروں کیلئے ادویات کی کمی پیدا ہوگی، اگر بڑے پیمانے پر ملیریا کے مریض سامنے آگئے اور ان کو مطلوبہ دوائی میسر نہ آئے تو خدانخواستہ یہ ایک اور المیہ ہوگا۔ وفاقی کابینہ میں کلورین کی برآمد کی مخالفت بھی اس صورتحال کے پیش نظر کی گئی ہوگی، حکومت کو ان کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اور بطور احتیاط اس کی برآمد کی فوری اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ کلورین کی برآمد کی اجازت کے بعد اس امر کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملکی ضروریات اور معمول کی ادویہ سازی کیلئے مطلوبہ مقدار دستیاب ہو اور اضافی پیداوار ہی برآمد کی جاسکے۔
سیاست سیاست کھیلنا بند کریں
مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اب بھی سیاسی بیانات میں حکومت پر تنقید اور اپنی جماعتوں ہی کو بحران سے نمٹنے اور حکومت کے قابل ہونے کے مضحکہ خیز دعوے دہرا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اور سندھ کی حکومت کے درمیان تو باقاعدہ محاذ آرائی رہی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس طرح کی بیان بازی اور محاذ آرائی کا وقت نہیں اور نہ ہی موجودہ وقت میںکسی خاص جماعت کی حکومت مسئلے کا حل ہے۔ یہ ایک عالمگیر وباء ہے جس کے سامنے سپرپاور کہلائی جانے والی حکومتیں اور ممالک بے بس دکھائی دے رہی ہیں لہٰذا بہتر ہوگا کہ سیاست سیاست کھیلنا بند کیا جائے اور جو بھی صلاح اور اقدامات موزوں ہوں وہ حکومت کو پیش کر کے غیرسیاسی طور پر اس پر عملدرآمد کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موزوں اور قابل عمل تجاویز کا خیرمقدم کرے۔ قومی اسمبلی کا ویڈیو لنک کے ذریعے ہی سہی اجلاس بلا کر صرف اس نکتے پر قومی اور عوامی نمائندوں کے طور پر مشاورت کی جائے اور تنقید سے گریز کرتے ہوئے تجاویز پیش کی جائیں اور متفقہ اقدامات اپنائے جائیں۔ ہر سطح پر تعاون کی فضا پیدا کی جائے اور جو بھی ممکنہ اقدامات موزوںہوں اس پر عملدرآمد کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی