p613 312

ٹریفک اور رش کا لاینحل مسئلہ

صوبائی دارالحکومت پشاورمیں کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ درپیش آتا ہے جس کے باعث شہر کی ٹریفک جام ہو جاتی ہے اور لوگ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں خجل وخوار ہو کر طے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اتوار کی چھٹی کے بعد کام کا پہلا دن عموماً ٹریفک رش کا ہوتا ہے، اس مرتبہ دو دن بعد بازار کھلنے اور صوبائی اسمبلی کے سامنے سرکاری ملازمین کے احتجاج نے پشاور میں سڑکیں جام کردیں۔ علی الصبح سے شروع ہونے والے ٹریفک جام سے رہی سہی کسر پوری ہوگئی۔سرکاری ملازمین کا احتجاج اور آئے روز سڑکوں کی بندش ایک مستقل مسئلہ بن گیا ہے، بہت سارے عوامل یکجا ہونے پر گزشتہ روز شہریوں کو بد ترین ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا۔ باربار پیش آنے والی ایک جیسی صورتحال اور ٹریفک پولیس کا بے بس ہو کر ٹریفک کو اس کے حال پر چھوڑ نا یا چند ایک سطحی قسم کے اقدامات مسئلے کا حل نہیں، ہر بار یہی صورتحال دہرائی جاتی ہے مگر اس کا مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان المبارک میں شہریوں کو اس صورتحال سے بچانے کیلئے ہفتہ،اتوار کے لاک ڈائون پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے یا پھر ایک دن چھوڑ کر پیر اور بدھ کو بازار بند رکھنے کا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں مختلف بازار مختلف دنوں میں کھلے رکھنے اور بند رکھنے سے سخت رش کا امکان کم ہوگا۔ رمضان میں اسمبلی کے سامنے اور جی ٹی روڈ پر ہر قسم کے احتجاج پر پابندی لگا کر اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ علاوہ ازیں جو بھی مناسب تجاویز ہوں ان کا جائزہ لیکر فیصلہ کیا جائے۔ حکام اسی طرح ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو رمضان المبارک میں روزہ داروں کی تکلیف دو گنا ہوگی جس سے ان کو بچانے کیلئے سنجیدہ اور ٹھوس حکمت عملی مرتب کر کے اس پرعمل پیرا ہوا جائے۔
کیا مجوزہ اقدامات اس وقت ممکن نہیں؟
خیبرپختونخوا حکومت نے نجی سطح پر فروٹ اینڈ وجیٹیبل مارکیٹس کا قیام تجاویز کی حد تک تو مثبت امر ہے لیکن ان کا قیام اور طے شدہ طریقہ کار پر عملدرآمد جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوگا۔ مجوزہ فروٹ اینڈ وجیٹیبل مارکیٹس کے قیام کا مقصد عوام کو نجی شعبے کے ذریعے معیاری پھلوں اور سبزیوں کی فراہمی یقینی بنانا ہے ۔ اس مقصد کیلئے ہر دو کلومیٹر کے بعد ایک مارکیٹ قائم کرنے کی گنجائش موجود ہو گی۔ مذکورہ مارکیٹوں میں مجاز حکام کی طرف سے منظور شدہ نرخ نامے عوام کیلئے نمایاں جگہ پر آویزاں کئے جائیں گے، جس کی خلاف ورزی کی صورت میں قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ان مارکیٹوں کا قیام جب تک عمل میں نہ لایا جائے اور منصوبے کے مطابق ان کو فعال نہ کیا جائے اس وقت تک جو فیصلہ ان مارکیٹوں کے بارے میں کیا گیا ہے اس کے اہم حصوں پر موجودہ مارکیٹوں میں عملدرآمد میں کیا امر مانع ہے۔ جو طریقہ کار ان مارکیٹوں کیلئے طے کیا گیا ہے اس پر صوبہ بھر میں موجود لاکھوں مارکیٹوں میں عملدرآمد شروع کیا جائے تو عوام ریلیف محسوس کریں، ان مارکیٹوں کا قیام اور پھر مجوزہ اقدامات تریاق ازعراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود کے مصداق ہوگا۔ اس کے باوجود حکومت کے اس احسن اقدام کو سراہتے ہوئے ہماری گزارش ہوگی کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کیساتھ ساتھ حال پر زیادہ توجہ دی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
نظر ثانی کرنا بہتر ہوگا
خیبر پختونخوا حکومت کا پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانون 2020ء میں ترمیم کرکے سابق ڈائریکٹر جنرلز کو ہرقسم کے احتساب سے مبرا قرار دینے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ شہری ادارے کے تمام ڈی جیز نہیں تو بعض سابقہ ڈی جیز کے حوالے سے عوام کے کافی تحفظات ہیں۔ تحفظ کے قانون کے بعد ان سے استفسار نہ ہوسکے گا۔احتساب کی دعویدار حکومت کو کسی کو کلین چٹ دینے کے اقدام سے گریز کرنا چاہئے۔نئے قانون میں ڈی جی کی تقرری کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے جس کے تحت اگر مارکیٹ سے اہل، دیانتدار اور ترقی ومنصوبہ بندی وعملدرآمد پر گرفت رکھنے والے کسی اُمیدوار کا چنائو کیا جائے تو احسن ہوگا اور اگر روایتی انداز اختیار کیا جائے تو یہ ایک اور بڑی غلطی ہوگی حکومت اس پر دوبارہ غور کرے تو بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام