4 290

ٹریکٹر پریڈ کی پرچم کشائی

بھارت کی تقریبا70فیصد آبادی کسان ہے۔ ان میں سے20فیصد گذشتہ کئی ہفتوں سے دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہی ہے اور26 جنوری کو لال قلعے پر اپنا پرچم اسی طرح لہرایا جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی ہر سال15اگست کو لہرایا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ کسانوں نے خالصہ پرچم لہرایا جس کو بھارت کے بیشتر میڈیا نے آتنک واد یعنی دہشت گردی سے تعبیر کیا۔ یہ خالصتان کا پرچم نہیں تھا۔کسان کشمیری تھوڑے ہیں کہ جن کو آپ دو سال سے زائد عرصے تک گھروں میں قید کریں گے، ہر دروازے کے باہر فوجی مسلط کریں گے، ہزاروں کو رات کی تاریکی میں گرفتار کرکے بھارت کی مختلف جیلوں میں بند کریں گے اور مواصلاتی نظام کو بند کر کے ایمبولینس بلانے کا حق بھی چھینں لیں گے۔ کسانوں نے لال قلعے میں داخل ہو کر نہ صرف پولیس نہ صرف بھاگنے پر مجبور کیا بلکہ بعد میں پیاس بجھانے کیلئے انہیں پانی کی بوتلیں بھی فراہم کیں۔کسانوں کی بھاری تعداد سکھ ہیں، ہریانہ کے جاٹھ ہیں، مہاراشٹر کے شواجی کے کٹر پیروکار ہیں۔ ان کی اکثریت گو کہ بہت غریب ہیں مگر غیرت اور منحت سے روزی روٹی کما کر اپنا اور بھارت کے کروڑوں عوام کا پیٹ پالتے ہیں۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو یقین تھا کہ جس طرح 5اگست کو بغل میں چند فائلیں چھپا کر امت شاہ نے پارلیمان میں کشمیریوں کے حقوق سلب کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر اکثر جماعتوں نے آواز تک نہیں اٹھائی اسی اعتماد سے زرعی اراضی سے متعلق قوانین کو بغیر کسی مزاحمت کے70فیصد آبادی پر مسلط کریں گے جس کے پس پردہ بظاہر سکھوں کو اپنی پیداواری صلاحیتوں اور زمینوں سے بیدخل کرنا ہے۔ بی جے پی کے بعض رہنماؤں نے کسان تحریک کے بارے میں خدشہ جتایا تھا کہ پنجاب میں خالصتان کی تحریک پھر سے جنم لے رہی ہے اور کسانوں کے روپ میں دہشت گرد دہلی میں داخل ہوگئے ہیں اور جن کی پشت پناہی پاکستان کر رہا ہے۔ ہر بار بی جے پی کا تیر نشانے پر نہیں لگ سکتا۔ پنجاب کے کسانوں کو گنے چنے صنعت کاروں کے چنگل میں پھنسا کر ان کی کسان بچا تحریک کو دبانے کا منصوبہ اس بار الٹا پڑ گیا جیسے6جنوری کے کیپیٹل ہل پر پرتشدد ہنگامے ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے مہنگے پڑ گئے ہیں۔6جنوری اور26جنوری جمہوری تاریخ کے اہم ترین باب بن چکے ہیں۔کشمیریوں کی طرح سکھ بھی کسی حد تک معاشی طور پر خود کفیل سمجھے جاتے رہے ہیں۔ زمین اور زراعت کے باعث یہ باقی ریاستوں سے معاشی طور پر قدرے بہتر حالت میں ہیں۔ دونوں قومیں بے حد جذباتی بھی ہیں جیسے معروف ناول نگار اروند اڈیگا اپنی کتاب وائٹ ٹائیگر میں لکھتے ہیں کہ پختون، مسلمان اور سکھ جذباتی اور غصیلے ہیں۔ ان کی خود کفالت ہندوتوا کے کارکنوں کو کھٹکتی رہی ہے۔ ورنہ سکھوں کو اکسانے یا ان کی زراعت پر نئی پالیسیوں کے پیچھے اور کیا مقصد ہوسکتا ہے۔ ہریانہ کے کسان رہنما جگونت سنگھ جو ننگولائی سرحد پر کئی روز سے احتجاج میں شامل رہے ہیں کہتے ہیں کہ بی جے پی نئے قوانین لاگو کر کے سکھوں کو اپنے آباو اجداد کی جاگیر سے محروم کرنے کے مشن پر ہے۔ چند صنعت کاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ہندوتوا حکومت چار فیصد برہمنوں کے سوا سب کو غلام بنا کر گروی رکھنا چاہتی ہے تاکہ ان تاجروں کی دولت سے یہ انتخابی گوٹالوں سے تخت دہلی پر براجمان رہے۔ ایسا ہم کرنے نہیں دیں گے جس کا اظہار دنیا نے26 جنوری کو لال قلعے کے مناظر میں دیکھا۔امریکہ، روس اور بھارت میں حالیہ ہفتوں میں عوامی احتجاجوں کا پرتشدد سلسلہ دیکھا جا رہا ہے بلکہ اسرائیل، ہالینڈ اور پاکستان میں بھی آئے روز جلسے جلوسوں کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال سیاہ فام تنظیموں کے لاکھوں افراد پر مشتمل جلسے امریکہ اور برطانیہ میں منعقد کرائے گئے۔ بیشتر تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق جمہوریت، سیاست اور سبقت لینے کی ایک نئی دوڑ ہے جس کے باعث عوامی حلقوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ٹرمپ نے غیر تارکین وطن والدین کو اپنے بچوں سے جدا کیا، اسلامی ملکوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیا پھر آنکھ بند کر کے یروشلم کو اسرائیل کی جھولی میں ڈال دیا، ولاد میر پوتن کے روس میں کسی مخالف کی آواز اٹھانے سے پہلے ہی اسے زہر دے دیا جاتا ہے۔ ملک میں معیشت ابتر ہوچکی ہے۔ ڈرگ مافیا معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔بھارت کے مودی نے تو حد ہی کر دی 22کروڑ مسلمانوں کی شہریت کو متنازعہ بنا دیا، کشمیر کو ہتھیا لیا، سکھوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کے مشن پر رواں دواں ہیں۔کیا پتہ بھارت کی70فیصد آبادی بھی شاید دو ماہ سے اسی لیے سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے کہ جمہوریت کو بنیادی سطح پر قائم کیا جاسکے،اس بار96فیصد آبادی نے دہلی کے حصار کو توڑ کر اس وقت جمہوریت کا اصلی چہرہ دکھایا اور دنیا کو پیغام دیا کہ اگر بھارت میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو لال قلعے پر صرف اور صرف کسان کو ہی ترنگا لہرانے کا حق ہے جو اس ملک کا ان داتا ہے۔ انبانی یا اڈانی کو نہیں۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج