ٹوٹتے بنتے بیانیوں کی سیاست

مروجہ سیاست کے مختلف الخیال سیاسی اتحادوں میں شامل جماعتوں کے نظریات اور قائدین کے خیالات پسندوناپسند اور وفاداریوں کے مرکز کبھی ایک نہیں ہوئے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی کا حالیہ انٹرویو نہ صرف اہم ہے بلکہ ایک مثال بھی۔ ہفتہ کی شام سابق وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی توڑنے کی حتمی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو آڑے ہاتھوں لینے کے ساتھ ان پر سنگین الزامات بھی عائد کئے جوابا پنجاب میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کے سربراہ چوہدری پرویزالٰہی نے اتوار کی شام ایک ٹی وی انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا اس میں سمجھنے والوں کے لئے نہ صرف کئی اشارے ہیں بلکہ جس انداز میں پرویزالٰہی نے سابق آرمی چیف کا دفاع کرتے ہوئے اپنی اتحادی جماعت کے سربراہ اور بعض رہنمائوں کو جواب دیا وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ سیاست کے سینے میں صرف دل ہی نہیں بلکہ اس میں حرف آخر بھی نہیں ہوتا۔ پرویزالٰہی عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے مرحلہ میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کے لئے سابق صدر مملکت آصف علیٰ زرداری کی کوششوں سے وزیراعلیٰ کے منصب کے لئے قابل قبول ہوئے اس مرحلہ پر وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن)و پیپلزپارٹی کے وفود نے لاہور میں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی سے ملاقاتیں بھی کیں۔ دعائے خیر ہوئی مٹھائی بھی تقسیم کی گئی اس کے فورا بعد چودھری پرویزالٰہی کو واپڈا کے اس وقت کے سربراہ ریٹائرڈ جنرل کے علاوہ اس وقت کے کور کمانڈر پشاور کے طور پر فرائض ادا کرنے والے جنرل فیض حمید نے ٹیلیفون پر بات کی جس کے بعد چودھری پرویزالٰہی نے آرمی چیف جنرل باجوہ سے رابطہ کر کے ان پیغامات کے حوالے سے ان کی منشا چاہی جوابا بقول چودھری پرویزالٰہی جنرل باجوہ نے کہا آپ لوگ عمران خان کے ساتھ چلے جائیں سابق آرمی چیف کے اس جواب پر پرویزالٰہی لاہور سے بنی گالہ پہنچے اور تحریک انصاف کی جانب سے اتحادی حکومت کے وزیراعلیٰ کے امیدوار بن گئے۔
گزشتہ روز کے ٹی وی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بہت ظلم کیا مجھے ساتھ بٹھاکر جنرل باجوہ پر الزامات لگائے حالانکہ اسی روز اڑھائی بجے زمان پارک میں ہونے والی ملاقات میں عمران خان نے باجوہ کے خلاف کوئی بات نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اتوار کی شام دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعلیٰ پنجاب کا لب و لہجہ، اسٹیبلشمنٹ سے اپنے دیرینہ تعلقات، جنرل باجوہ کے پی ٹی آئی پر احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے احسان فراموشی پر تنقید کے ساتھ ساتھ انہوں نے بعض ایسی باتیں بھی کہیں جن سے یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ یہ خیالات بدلتی ہوئی صورتحال میں نئی صف بندیوں اور فیصلہ سازی کے اشارے ہیں۔ ان کا یہ کہنا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ہم سمیت 99فیصد لوگ ان میں پی ٹی آئی والے بھی شامل ہیں اسمبلیوں کی تحلیل کے مخالف ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی رابطہ نہیں ٹوٹا۔ نوازشریف اور مریم نواز میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ پی ٹی آئی والے خود کو کیا سمجھتے ہیں۔ یہ کوئی اوتار ہیں انہوں نے ہر بات کو مذاق بنالیا ہے۔ اپنی اوقات میں رہیں۔ وزیراعلیٰ کی یہ بات بطور خاص قابل غور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ معیشت کا بیڑا غرق ہے وہ چاہتے ہیں کہ نظام چلے اور اسمبلیاں مدت پوری کریں یہ کہ ان کے پاس ایک سال کی معاشی ایمرجنسی کا پلان بھی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے اتوار کی شام دیئے گئے انٹرویو کو بعض حلقے ہفتہ کی شام عمران خان کے ویڈیو لنک خطاب جس میں وہ بھی موجود تھے کے بعد اسلام آباد کے ہنگامی دورے اور دو ملاقاتوں سے جوڑ کر دیکھ بتارہے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ یہ انٹرویو درحقیقت عمران خان کے باجوہ مخالف بیانیہ کا جواب ہی نہیں بلکہ مستقبل کے منظرنامے کی جانب اشارے بھی ہیں۔
اس سے صرفِ نظر ممکن نہیں کہ ملک میں اس وقت صرف سیاسی عدم استحکام ہی نہیں بلکہ معاشی عدم استحکام بھی نظام کی بنیادیں ہلارہا ہے۔ ہر دو مسائل سے نمٹے بغیر ضمنی یا قومی انتخابات کی طرف جانا مزید مسائل کو دعوت دینے کے ساتھ ساتھ معاشی ابتری کو سنگین تر بنانے کا موجب بن سکتا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کی حالیہ لہر میں آنے والی تیزی ہے مثلا گزشتہ روز بنوں اور لکی مروت میں رونما ہوئے افسوسناک واقعات ہیں ان سب مسائل کے ہوتے ہوئے انتخابی سیاست کے لئے اکھاڑہ سجانے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے یہ کسی سے بھی مخفی نہیں۔ ملکی تاریخ میں اس طرح کی غیرذمہ دارانہ گفتگو عمران خان کے علاوہ کسی بھی سابق وزیراعظم نے کبھی نہیں کی۔ گزشتہ آٹھ نو ماہ سے عمران خان جس طرح کے خیالات کا اظہار کررہے ہیں وہ ذہنی دبائو کا نتیجہ ہیں یا حکمت عملی کا حصہ؟ گو اس ضمن میں ان کے ناقدین جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے دس فیصد بھی درست مان لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کا شدت پسندانہ رویہ اصل میں اپنے دور حکومت کی ناکامیوں، کرپشن کے واقعات اور توشہ خانہ سکینڈل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔ وہ اس اصول پر عمل پیرا ہیں کہ اتنی شدت اور بلند آواز میں مخالفین پر الزامات لگائے جائیں کہ صرف وہی ایماندار اور مصلح دکھائی دیں۔ پرویزالٰہی پرانے سیاسی خاندان کے جہاندیدہ سیاستدان ہیں ان کی سیاست، انداز تکلم اور دھڑے بندی میں مہارت کو اگر حالیہ انٹرویو سے ملاکر دیکھا جائے تو مستقبل کے منظرنامے کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سیاسی موسموں کے سردوگرم سے بخوبی آگاہ تجربہ کار سیاستدان سے یہ توقع کرنا کہ ان کا انٹرویو فقط مدح سرائی جنرل باجوہ ہے تو یہ غلطی ہوگی۔ پنجاب ملک کا آبادی کے حوالے سے ہی بڑا صوبہ نہیں بلکہ سیاسی عمل اور نظام حکومت کی تشکیل اور دیگر معاملات میں بھی اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا یہ کہنا کہ ان کے پاس ایک سال کی معاشی ایمرجنسی کا پلان موجود ہے۔ یا یہ کہ ہم سمیت 99فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں نہ توڑی جائیں اہم ترین نکات ہیں ان نکات میں موجود پیغام کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے نہ سوالات اور جواب آں غزل کو۔ بہرطور اس امر کا انتظار ہی کرنا پڑے گا کہ موجودہ صورتحال کا ڈرامائی اختتام کیسا رہے گا اور یہ کہ دو صوبائی اسمبلیوں کا اونٹ 23دسمبر کو کس کروٹ بیٹھے گا۔ حالات اور نتائج جو بھی ہوں فی الوقت ہر کس و ناکس دعاگو ہے کہ وطن عزیز مزید مشکلات و مسائل سے دوچار نہ ہو بلکہ سیاستدان اس مرحلہ پر فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی و معاشی ابتری سے ملک اور عوام کو نجات دلانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھیں۔
پسِ نوشت
کالم لکھ چکا تھا کہ خبر ملی پنجاب میں وزیر اعلیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی گئی ہے جبکہ گورنر نے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے بھی کہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر