p613 222

ٹکراؤ سے گریز کی موزوں حکمت عملی

ارکان نے رائے دی کہ پارلیمنٹ کے فورم کوچھوڑنا سیاسی طور پر بہتر اقدام نہیں ہوگا، پی پی پی کے قانونی ماہرین نے اظہار خیال کیا کہ استعفے سینیٹ الیکشن کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتے، اگر ہم نے استعفے دے دئیے تو اس کے بعد آگے کا لائحہ عمل بالکل واضح نہیں ہے۔ مرکزی مجلس عاملہ کے اراکین نے کہا کہ میاں نواز شریف کو وطن واپس آکر لانگ مارچ کا حصہ بننا چاہیے، شرکاء نے کہا کہ اگر سابق وزیر اعظم نواز شریف وطن واپس آکر لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہیں تو استعفوں پر غور کیا جاسکتا ہے، قبل ازوقت استعفوں سے حکومت کو اٹھارہویں آئینی ترمیم اور دیگر جمہوری قوانین کو ختم کر نے کا موقع مل جائے گا۔آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں واضح تھا کہ استعفے مناسب وقت پر دئیے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ میں جن نکات کو اُجاگر کرتے ہوئے تجاویز دی گئی ہیں اگرچہ حکومتی اراکین اس پر بغلیں بجا رہے ہیں اور اسے پی ڈی ایم میں پھوٹ سے تعبیر کر رہے ہیں، ممکن ہے ان کا خیال درست ہو، بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو اور جمہوری جماعتوں کے اکٹھ میں اختلاف رائے نہ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں، البتہ پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمن کا رویہ اور جھکاؤ اور ہر قیمت پر اپنی منوانے کا وتیرہ اور پھر بعض اشاروں کنایوں سے اظہار ناراضگی کا رویہ پی ڈی ایم کیلئے نیک شگون نہیں۔ اس وقت تک دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان حیرت انگیز حد تک بظاہر ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے، ممکن ہے استعفوں کو نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کئے جانے کی شرط کے بعد گلے شکوے بڑھ جائیں۔ اس امر کا بھی امکان ہے کہ استعفوں کا معاملہ بالحکمت مؤخر کرنے کیلئے یہ شرط رکھی گئی ہو، بہرحال ان تمام معاملات سے قطع نظر اگر سیاسی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھا جائے اور جن امور کی نشاندہی ہوئی ہے اور جو منظرنامہ سامنے ہے سیاسی دانش کا تقاضا یہی ہے کہ پارلیمان میں رہ کر جدوجہد کی جائے اور جو بھی تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے وہ ایوان کے اندر سے ہی آئے باہر سے آنے والی کوئی تبدیلی سیاسی عمل اور جمہوریت کے حق میں کبھی بھی بہتر نہیں نکل سکتا۔ استعفوں کے مؤثر ہونے اور حکومت اور اس کے حامیوں و سرپرستوں کو دباؤ میں لانے اور ملک میں سیاسی اُتار چڑھاؤ کو مہمیز دلانے کیلئے نواز شریف کی واپسی سے استعفوں کو مشروط کرنا استعفوں کے معاملے کو ٹالنے کا حربہ ہو یا نہ ہو البتہ استعفوں کو غیر مؤثر ہونے سے بچانے کیلئے اس شرط کے پوری ہونے پراسمبلیوں سے اخراج کو مشروط کرنے کی حکمت عملی بلاوجہ نہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اگر ایک مرتبہ پھر واپس آکر جیل جانے کو تیار ہوتے ہیں اور عدالتوں میں اپنے مقدمات میں پیش ہوتے ہیں، ساتھ ہی پی ڈی ایم مستعفی ہو کر لانگ مارچ شروع کر دیتی ہے تو اس کے نتائج تحریک انصاف کے دھرنے سے مختلف ہوں گے۔ ان تمام مشکل حالات سے حکومت، حزب اختلاف اور ملک وقوم سبھی کو بچانے کا اولین تقاضا قومی سطح پر مذاکرات اور مکالمہ شروع ہونا ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بحران کا شکار ہونا سودمند امر نہیں۔ حکومت پارلیمان اور منتخب نمائندوں سے مذاکرات کی دعوت پہلے ہی دے چکی ہے، سیاسی عمل میں ایک بظاہر کے مذاکرات اور دوسرے بباطن مذاکرا ت و معاملت کی روایت رہی ہے۔ یہ طریقہ اختیار کیا جائے تو منتخب و غیر منتخب اور اسٹیبلشمنٹ سمیت سبھی شریک معاملہ ہوسکیں گے۔ سیاسی جماعتیں خواہ کتنا بھی انکار کریں پس پردہ قوتوں سے معاملت ہر بار ہوتی ہے اور اس مرتبہ بھی یہی روایت دہرانے کا امکان ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی ممکنہ تبدیلی آتی ہے تو اس کے بعد ہی سیاست وجمہوریت مضبوط ہوگی مگر ایسا ہونے کا امکان کم ہی ہے۔ بالآخر سارے فریقوں کو مل بیٹھنا ہوگا اور معاملات کا حل نکالنا ہوگا، اس امر پر ہر کسی کو اتفاق ہے کہ ملک سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا ،جتنا جلد سیاست کے آسمان پر گھن گرجنے والے بادل چھٹ جائیں اتنا بہتر رہے گا۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار